سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(226) ایک شخص نے بہ نیت ایصال ثواب موتیٰ کے پچاس مساکین..الخ

  • 4415
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 873

سوال

(226) ایک شخص نے بہ نیت ایصال ثواب موتیٰ کے پچاس مساکین..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے بہ نیت ایصال ثواب موتیٰ کے پچاس مساکین کے لیے کھانا تیار کیا اور اس کے ساتھ پچاس اغنیاء کو بھی کھانا کھلوانے کے لیے ایک ہی دیگ میں ملا کر کھانا پکایا پس اس طعام مخلوط میں سے اغنیاء کھا سکتے ہیں یا نہیں اگر کھا سکتے ہیں تو اس پر کون سی دلیل شرعی مانع ہے۔ اور اگر جواز ہے تو اس کی رخصت پر کیا دلیل ہے۔ بینواتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ باخلط غیر صدقہ کے ساتھ جائز تو ہے ولیکن یہ غور کرنا چاہیے کہ وہ اغنیا کو کس نیت سے شامل کرتا ہے۔ اگر ریا و ناموری کی نیت سے ہے تو حرام ہے۔

((لقولہ علیہ السلام المتباریان لا یجابانن ولا یوکل طعامھما وان یسیر الریا لشرک وغیر ذلک من الاٰیات والاحادیث الدالۃ علی ذم الریاء والخیلا))

’’فخر سے دعوت کرنے والوں کی دعوت قبول نہ کی جائے نہ ان کا کھانا کھایا جائے۔ کیونکہ یہ شرک اصغر ہے۔‘‘

اور اگر دعوت دوستانہ کی نیت سے ہے و بطور ہدیہ اغنیاء کو کھلاتا ہے تو محل اس کا نہیں ہے شریعت میں تعزیت موت پر دعوت کرنا نہیں آیا۔ اس کا محل نکاح ہے۔ چنانچہ فتح القدیر میں ابن ہمام نے ذکر کیا ہے کہ یہ دعوت جائزنہیں ہے۔

((لانھا شرعت فی السرور لا فی الشرور))

’’کیونکہ دعوت خوشی میں ہوتی ہے غمی میں نہیں ہوتی۔‘‘

اور جب کہ دعوت میں ان تینوں فاسدہ سے غیر خدا کے تقرب کی بھی نیت ہے تو وہ ساری دعوت نامقبول ہے اور خدا کی طرف سے مردود۔

((قال اللّٰہ تعالیٰ فی الحدیث القدسی انا اغنی الشرکاء عن الشرک من عمل عملا اشرک فیہ ترکتہ وشرکہ وانا منہ بریٔ))

’’حدیث قدسی میں ہے کہ میں شرکاء میں سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ اگر کوئی ایسا عمل کرے جس میں میرے سوا کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اس سے دست بردار ہو جاتا ہوں۔‘‘

ہاں سوائے تقریب ایصال ثواب موتے کے اگر کوئی ایسا کھانا پکاوے جس میں کسی قدر صدقہ کی نیت سے ہے اور کسی قدر ہدیہ شرعیہ کی نیت سے بدوں فساد نیت و بلا دخل بدعت تو اس کے جواز میں کچھ کلام نہیں لیکن اس میں تحری بکار ہے کہ جس قدر صدقۃ اللہ کی نیت سے ہے اس قدر صدقہ اپنے ذمہ پر رہ نہ جاوے اللہ تعالیٰ اخلاط مال یتیم کے باب میں جس کا کھانا بلاوجہ حرام ہے فرماتا ہے:

{قُلْ اِصْلَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ وَ اِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ}

’’کہہ ان کے لیے درستی بہتر ہے اگر تم ان کو اپنے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فسادی اور مصلح میں خوب امتیاز کر سکتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو تم کو مشقت میں ڈال دیتے اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والے ہیں۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس مال کا کھانا اپنے لیے درست نہیں ہے اس لیے کہ وہ حق غیر کا ہے اللہ تعالیٰ کا یا بندہ کا تو اس کا خلط اپنے مال سے درست ہے بشرطیکہ اس میں اصلاح بکار لائی جاوے اللہ کے حق کو اپنے حق میں نہ لیا جاوے۔ فقط حررہ ابو سعید محمد حسین عفی عنہ۔

(سید محمد نذیر حسین) (محمد عبد الحکیم) (بہ طفیل نبی الٰہی)

(فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۴۳۸)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 380

محدث فتویٰ

تبصرے