کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ میت کے واسطے بطریق صدقۂ بلا تعیین ایام جو کھانا کھلایا جاوے اس میں کچھ ثواب نہیں ہے کیوں کہ اس کا حکم حدیث میں نہیں ہے۔ عمرو کہتا ہے کہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں صاف آ چکا ہے کہ صدقہ سے البتہ میت کو ثواب ہے۔
((افلھا اجران تصدقت عنھا قال نعم))
’’اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو کوئی ثواب پہنچے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔‘‘
اور کھانے کا صدقۃ کی قسم سے ہونا احادیث سے ظاہر ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
((قال رسول اللّٰہ ﷺ افضل الصدقۃ ان تشبع کبدا جَائعا رواہ البیہقی)) (مشکوٰۃ شریف)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو کسی بھوکے آدمی کو کھانا کھلا دے۔‘‘
اور جلال الدین سیوطی نے شرح الصدور میں بروایت طبرانی اس طرح ذکر کیا ہے:
((افلھا اجران تصدقت عمنھا قال نعم ولو بکراع شاۃ محرق))
’’اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں اگرچہ بکری کی جلی ہوئی کھری ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
پس سوال یہ ہے کہ عمرو کا یہ قول کہ جو کھانا کہ بلاتعیین ایام بطریق صدقۃ کھلایا جاتا ہے۔ اس میں میت کو ثواب ہے حق ہے یا زید کا یہ قول کہ اس میں ثواب نہیں ہے حق ہے۔ بینواتوجروا۔
عمرو کا قول حق ہے۔ بے شک میت کے واسطے جو کھانا بلا تعیین ایام و بلا آمیزش کسی بدعت کے بطور صدقہ کے فقراء و مساکین کو کھلایا جائے۔ تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ کیونکہ میت کی طرف سے صدہق کرنے کا ثواب میت کو بلاشبہ پہنچتا ہے۔ اور میت کے واسطے فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا بھی میت کی طرف سے صدقہ کرنا ہے۔ لہٰذا اس کا بھی ثواب میت کو پہنچے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
(حررہ العبد العاجز عین الدین عفی عنہ ) (سید محمد نذیر حسین)