سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(220) مردے کی طرف سے کھانا کھلانا.. احناف کے اصول

  • 4409
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1086

سوال

(220) مردے کی طرف سے کھانا کھلانا.. احناف کے اصول
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء اہل حدیث اس امر میں کہ مردے کی طرف سے کھانا کھلانے کے ثبوت میں احناف جب اوزجندی کی روایت پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت علیہ السلام نے اپے فرزند ابراہیم کی وفات پر لوگوں کو کھانا کھلایا تھا۔ تو آپ لوگ اسے بے سند بے اصل موضوع کہہ دیتے ہیں۔ لیکن آپ نے خود جو مردے کے گھر کھانا کھایا جیسا کہ مشکوٰۃ باب المعجزات میں ہیـ

((خرجنا مع رسول اللّٰہ ﷺ فی جنازۃ فلام رجع استقبلہ داعی امراتہٖ فاجاب ونحن معہ فجئی بالطعام فوضع یدہ ثم وضع القوم فاکلوا))

اس حدیث سے مرنے والے صحابی کی بیوی کی دعوت قبول کر کے آپ کا وہاں کھانا کھانا صاف ثابت ہوتا ہے۔ اس کا کیا جواب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث مذکور صاحب مشکوٰۃ نے بحوالہ ابی داؤد بیہقی نقل کی ہے اور ابو داؤد کے کسی نسخہ میں ((امراتہٖ)) کا لفظ نہیں ہے۔ بلکہ ((داعی امراۃٍ)) ہے۔ دیکھو ابو داؤد کتاب البیوع باب اجتناب الشبہات، جس سے صاف ظاہر ہے کہ مرنے والے صحابی کی بیوی نے کھانے پر نہیں بلایا تھا۔ بلکہ کسی اور عورت نے دعوت دی تھی۔ چنانچہ بیہقی میں ہے:

((صنعت امرأۃ من قریش لرسول اللّٰہ طعامہ قد عتہ واصحابہ الخ جلد ۶ ص ۹۷))

معلوم ہوا کہ دعوت دینے والی عورت قریشیہ تھی اور جس کے جنازے میں آپ تشریف لے گئے تھے۔ وہ انصاری تھا۔ جیسا کہ مسند احمد میں ہے:

((خرجنا مع النبی ﷺ فی جنازۃ رجل من الانصار الخ جلد ۵ ص ۴۰۸))

نیز اس کتاب میں ہے:

((فلما رجعلنا داعی امراۃ من قریش الخ))

’’کہ دعوت دینے والی عورت قریش میں سے تھی۔‘‘

دونوں روایتوںکو ملانے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مرنے والی کی بی بی نے دعوت نہیں دی تھی۔ پس صاحب مشکوٰۃ نے لفظ امراتہٖ غلط نقل کیا ہے۔ جو انہیں کے بتلائے ہوئے حوالوں کے خلاف ہے۔ دارقطنی نے بھی روایت مذکورہ کئی سندوں سے نقل کی ہے۔ ان کو بھی دیکھئے:

((اخرجنا مع النبی ﷺ فی جنازۃ فلما انصرف تلقاہ داعی امرأۃ من قریش الخ صنعت امرأۃ من المسلمین من قریشٍ لرسول اللّٰہِ ﷺ طعاماً فدعتۃ واصحابہ الخ جلد ۲ ص ۵۴۵))

’’حاصل یہ کہ ایک عورت نے جو مسلمان قریشیہ تھی آپ کے لیے کھانا پکایا جبکہ آپ ایک شخص کے جنازے سے واپس آ رہے تھے۔ تو اس کا داعی ملا جو آپ معہ صحابہ کے اس کے گھر لے گیا۔‘‘

مرنے والے کی بیوی کے یہاں دعوت نہیں تھی اور یہ عقل میں بھی نہیں آتا کہ جس کے گھر میت ہوئی وہ اتنے جلدی کہ دفن کرنے والے صرف واپس ہی ہوئے ہوں کسی دعوت کا انتظام کر سکے، جبکہ بحکم شرع ان کے گھر تو کسی دوسرے پڑوسی کے ہاں سے کھانا آیا ہو گا۔ (رازؔ) سائل چونکہ حنفی ہے، اس لیے اس کے اطمینان خصوصی کے لیے احناف کی کتب احادیث کے بھی چند حوالے لکھ دیتا ہوں۔ طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے شرح معانی الآثار باب الکل الحمر میں روایت مذکورہ یوں نقل کی ہے:

((رجلا من الانصار کان مع النبی ﷺ فی جنازۃ فلقیہٗ رسول امراۃ من قریش یدعو الی الطعام الخ س ۲۳۰ ج۲))

’’ایک مرد انصاری آنحضرت ﷺ کے ہمراہ ایک جنازہ میں تھا کہ ایک قریشہ عورت کا قاصد ملا جو کھانے کے لیے دعوت دے رہا تھا۔‘‘

اس طرح طحاوی موصوف نے اپنی کتاب مشکل الآثار ص ۱۳۲ جلد۲ میں نقل کیا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب الآثار میں ہے:

((منع رجل من اصحاب محمد ﷺ طعاما الحدیث ص ۱۲۵ طبع لاہور))

یہی عبارت جامع المسانید ص ۶۵ میں بھی ہے۔ جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے۔ نیز مسند امام ابو حنیفہ مع شرح علی القاری طبع مجتبائی دہلی ص ۲۴۳ میں ہے:

((ان رجلا من اصحاب محمد ﷺ منع طعاماً الخ))

ان دونوں روایتوں سے ثابت ہوتا ہے، کہ کھانا تیار کرنے والا مرد تھا۔ بہر حال مر دہو یا عورت وہ مرنے والے شخص سے کوئی تعلق و نسب یا جواز کا نہیں لکھتا تھا۔ پس صاحب مشکوٰۃ کا ((داعی امراتہٖ)) نقل کرنا صریح غلط (بنا بر سہو و نسیان (رازؔ) ہے اور اس سے طعام میت پر دلیل پکڑنی بنائے فاسد علی الفاسد۔ واللہ اعلم

کتبہ محمد ابو القاسم البنارسی (فتاویٰ ثنائیہ جلد ۵۵۰ جلد ۱)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 371

محدث فتویٰ

تبصرے