سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(187) قرآن کریم ختم کر کے ثواب میت کو پہنچانا کیسا ہے؟

  • 4376
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1286

سوال

(187) قرآن کریم ختم کر کے ثواب میت کو پہنچانا کیسا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کریم ختم کر کے ثواب میت کو پہنچانا کیسا ہے؟

جواب:… احادیث سے مالی صدقات سے ہی ایصال ثواب کا ثبوت ملتا ہے۔ (اہل حدیث سوہدرہ، ۱۵ دسمبر ۱۹۶۲ئ)

سوال:…(۱)        ایصال ثواب کے لیے بغیر تعیین تاریخ جمعرات کو (اس بنا پر کہ اُس دن فقراء کثرت سے آتے ہیں) اغنیاء اور فقراء کی ایک ساتھ عام دعوت کرنی جائز ہے یا نہیں؟

(۲)      اس قسم کی دعوت میں شرکت کرنے والوں کا کیا حکم ہے؟

(۳)     اگر کوئی شخص اس دعوت میں شریک نہ ہو تو احباب ((اِذَا دُعِیَ)) کے خلاف تو نہ ہوگا۔ اس قسم کی دعوت خیر القراون میں ملتی ہے یا نہیں؟

(۴)     ایصال ثواب کی عام احادیث کی رو سے اس نوع کی دعوت کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشترکہ عام دعوت میں فقراء اور اغنیاء کو بغیر ارادہ فخر و ریاء کے اور بغیر رسم کی پابندی کے بایں طور کھلانا کہ فقراء جس قدر کھائیں اس سے مقصود میت کو ایصال ثواب ہو اور جس قدر اغنیاء کھائیں وہ دوستانہ دعوت اور ہدیہ کے طریق پر ہو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور ہرج نہیں ۔ ارشاد ہے:

{َ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ وَ اِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ} (قرآن کریم پ۲)

جب یتیم کا مال اور حق کو (جس کا کھانا ولی کے لیے درست نہیں) بشرط اصلاح اپنے مال کے ساتھ ملانا اور تیار کرنا جائز ہے تو کسی کے مر جانے کے کچھ دن بعد ایصال ثواب کی غرض سے (جو ضروری نہیں ہے اور نہ فقراء کا حق واجبی ہے بلکہ وہ مال اور صدقہ کرنے والے کی ہی ملکیت ہے) فقراء والے کھانے کو ملا کر تیار کرنے اور مشترکہ دعوت کرنے میں بھی کوئی قباہت و کراہت نہیں اور جب یہ دعوت درست ہے، تو اس میں اغنیاء کا شریک ہونا جائز ہے اور اس کا رد کرنا ((اجاب اذا دعی)) کے خلاف ہے۔ ایسی مشترکہ دعوت کی نظیر خیر القرون میں نہیں ملی۔ لیکن ایصال ثواب کی عام احادیث اور آیت مذکورہ بالا کی رو سے یہ دعوت جائز ہے۔ بالخصوص جب کہ منع و کراہت کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ (محدث دہلی جلد نمبر ۱۰ ش نمبر ۷)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 351

محدث فتویٰ

تبصرے