سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(183) میت کے ایصال ثواب اور مغفرت کے لیے قرآن مجید اور..الخ

  • 4373
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4197

سوال

(183) میت کے ایصال ثواب اور مغفرت کے لیے قرآن مجید اور..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت کے ایصال ثواب اور مغفرت کے لیے قرآن مجید اور بخاری شریف یا دیگر وظائف مثلاً حصن حصین اور دینی کتب کا ختم کرانا درست ہے؟ یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ میرا مسلک وہی ہے جو حضرت مولانا و مرشدنا عبد الرحمٰن صاحب محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کا ہے۔ آپ کا فتویٰ فتاویٰ نذیریہ جلد اول نمبر ۴۴۱ پر در ج ہے۔ بعینہٖ آپ کے فتویٰ کو ذیل میں نقل کرتے ہیں۔

متاخرین علمائے اہل حدیث سے علامہ محمد بن اسماعیل امیر رحمۃ اللہ علیہ نے سبل السلام میں مسلک حنفیہ کو راجح دلیلاً بتایا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ قرآن اور تمام عبادات بدنیہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ ازروئے دلیل زیادہ قوی ہے۔ اور علامہ شوکان رحمہ اللہ نے بھی نیل الاوطار میں اسی کو حق کہا ہے مگر اولاد کے ساتھ حق کہا ہے۔ یعنی یہ کہا ہے کہ اولاداپنے والدین کے لیے قرأۃ قرآن یا جس عبادت بدنی کا ثواب پہنچانا چاہے تو جائز ہے۔ کیوں کہ اولاد کا تمام عمل خیر مالی ہو خواہ بدنی۔ اور بدنی میں قرأۃ قرآن ہو یا نماز روزہ۔ یا کچھ اور سب والدین کو پہنچتا ہے۔ ان دونوں علامہ کی عبارتوں کو مع ترجمہ یہاں نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سبل السلام شرح بلوغ المرام جلد اول ص ۲۰۷ میں ہے:

((ان ھذہٖ الادعیۃ ونحوھا نافعۃً المیت بلا خلاف واما غیرھا من قرأۃ القراٰن فالشافعی یقول لا یصلی ذالک الیہ۔ وذھب احمد وجماعۃ من العلماء الی وصولً ذالک الیہ۔ وذھب جماعۃ من اھل السنۃ والحنفیۃ الی ان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوٰۃ کان اوصوما ارجحجا او صدقۃ او قرأۃ قرأن او زکر او ای نوع من انواع القرب وھذا ھو القول الارجح ولیلا وقد اخرج الدارقطنی ان رجل سأل النبی ﷺ ان کیف یبراء بویہ بعد موتھما فساجابہ بانہ یصلی لھما مع صلوۃ ویصوم لھما مع صیامہ واخرج ابو داؤد من حدیث معقل بن یسار عنہ ﷺ۔ اقروا علی موتاکم سورۃ یٰسین وھو شامل للمیّت سبل ھو الحقیقۃ فیہ واخرج الشیخان انہ ص کان یضحی عننفدہ بِکَبَشٍ وعن امۃ بِکَبَشٍ وفیہ اشارۃ الٰی ان الانسان ینفعۃ عمل غیرہ۔ وقد بسطنا الکلام فی حواشی ضوء النھار۔ بما یتضح منہ قوۃ ھذا المذھب انتہیٰ))

’’یعنی یہ زیارت قبور کی دعائیں اور مثل ان کے اور دعائیں میت کو نافع ہیں۔ بلا اختلاف میت کے لیے قرآن پڑھنا۔ سو امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے۔ اور امام احمد اور علماء کی ایک جماعت کا مذہب ہے۔ کہ قرآن پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔ اور علمائے اہل سنت سے ایک جماعت کا اور حنفیہ کا مذہب ہے کہ انسان کو جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب غیر کو بخشے، نماز ہو، یا روزہ یا صدقہ یا قرأۃ قرآن یا کوئی ذکر یا کسی قسم کی کوئی اور عبادت اور یہی قول دلیل کی رو سے زیادہ راجح ہے۔ اور دارقطنی نے روایت کی ہے کہ ایک مرد نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ان کے مرنے کے بعد کیوں کر نیکی و احسان کرے آپ نے فرمایا۔ اپنی نماز کے ساتھ دونوں کے لیے نماز پڑھے۔ اور اپنے روزہ کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزہ رکھے۔ اور ابو داؤد میں معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے مردوں پر یٰسین پڑھو۔ اور یہ حکم میت کو بھی شامل ہے۔ بلکہ حقیقتاً میت ہی کے لیے ہے۔ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک بھیڑا اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک اپنی امت کی طرف سے اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی کو غیر کا عمل نفع دیتا ہے اور ہم نے حواشی ضوء النہار میں اس مسئلہ پر مبسوط کلام کیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مذہب قوی ہے۔‘‘

(جلد ۳: ص ۳۳۵ نیل الاوطار)

((والحق انہ یخصص عموم الایۃ بالصدقۃ من الولد کما فی احادیث الباب وابالحج من الولد کما فی خبر الخثعمیۃ ومن غیر الولد ایضا کما فی الحدیث المحرم عن اخیۃ شبرمۃ ولم یستفصلہ ﷺ ھل اوصی شبرمۃ ام لا۔ وبالعتق من الولد کما وقع فی البخاری فی حدیث سعدٍ خلافا للمالکیۃ علی المشھور عدنھم وبالصلوٰۃ من الولد ایضًا لما روی الدارقطنی ان رجلا قال یا رسول اللّٰہ انہ کان لی ابوان ببرھما فی حال حیوتھما فکیف لی برھما بعد موتھما فقال ﷺ؍ ان من البر بعد البر ان تصلی لھما مع صلاتک وان تصوم لھما مع صیامک وبالصیام من الولد لھذا الحدیث ولحدیث ابن عباس عند البخاری ومسلم ان امرأۃ قالت یا رسول اللّٰہ ان امی ماتت وعلیھا صوم نذرٍ فقال ارأیت لو کان دین علی امک فقضیتہٖ وکان یؤدی عنھا قالت نعم قال فصومی عن امک واخرج مسلم و ابو داؤد والترمذی من حدیث بریدۃ ان امرأۃ قالت انہ کان علی امی صوم شھر فاصوم عنھا۔ قال صومی عنھا ومن غیر الولد ایضا لحدیثٍ من مأتگ وعلیہ صیام صیام عنہ ولیہ متفق علیہ وبقرأۃ یٰسن من الولد وغیرہٖ لحدیث اقرؤا علیٰ موتا کم یٰسین۔ بالدعاء من الولد لحدیث۔ او ولدً صالح یدعو لہٗ ومن غیرہٖ لحدیث استغفروا الا خیکم وسئلوا لہ الثبت ولقولہ تعالٰٰ والذین جائو من بعد ھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذی سبقونا بالایمان ولما ثبت من الدعائِ للمیت عند الزیادۃ لجمیع ما یفعلہ الولدیہ من اعمال البر لحدیث ولد الانسان من سعیہٖ انتھیٰ))

حاصل اور خلاصہ ترجمہ: ’’اس عبارت کا بقدر ضرورت یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ آیۃ ((وَاَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی)) اپنے عموم پر نہیں اور اس کے عموم سے اولاد کا صدقہ خارج ہے۔ یعنی اولاد اپنے مرے ہوئے والدین کے لیے جو صدق کرے اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ اور اولاد اور غیر اولاد کا حج بھی خارج ہے۔ اس واسطے خثعمیہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد جو اپنے والدین کے لیے حج کرے۔ اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ اور شبرمۃ کے بھائی کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کا ثواب میت کو غیر اولاد کی طرف سے بھی پہنچتا ہے۔ اوراولاد جو اپنے والدین کے لے غلام آزاد کرے تو اس کا ثواب بھی والدین کو پہنچتا ہے۔ جیسا کہ بخاری میں سعد کی حدیث سے ثابت ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے نمازپڑھے یا روزہ رکھے۔ سو اس کا ثواب بھی والدین کو پہنچتا ہے۔ اس واسطے کہ دارقطنی میں ہے کہ ایک مرد نے کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ تھے۔ ان کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی و احسان کیا کرتا تھا۔ پس ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیوں کر نیکی کروں۔ آپ نے فرمایا: مرنے کے بعد نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ اپنے والدین کے لے روزہ بھی رکھ۔ اور صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ ! میری ماں مر گئی اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے۔ آپ نے فرمایا: بتا اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہوتا۔ اور اس کی طرف سے تو ادا کرتی تو ادا ہو جاتا، یا نہی۔ اس نے کہا: ہاں ! ادا ہو جاتا۔ آپ نے فرمایا: روزہ رکھ اپنی ماں کی طرف سے اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک عورت نے کہا میری ماں کے ذمہ ایک مہینہ کے روزے ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں۔ آپ نے فرمایا: اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھ۔ اور غیر اولاد کے روزہ کا بھی ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ اس واسطے کے حدیث متفق علیہ میں آیا ہے کہ جو شخص مر جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھے۔ اور سورۃیٰسین کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف سے بھی ۔ اس واسطے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے مردوں پر یٰسین پڑھو۔ اور دعا کا نفع بھی میت کو پہنچتا ہے اولاد، دعا کرے یا کوئی اور ۔ اور جو جو کار خیر اولاد اپنے والدین کے لیے کرے۔ سب کا ثواب والدین کا پہنچتا ہے۔ اس واسطے کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی سے ہے۔ جب علامہ شوکانی اور علامہ محمد بن اسمٰعیل امیر کی تحقیق ایصال ثواب قرأۃ قرآن و عبادت بدنیہ کے متعلق سن چکے۔ تو اب آخر میں علامہ ابن النحوی کی تحقیق بھی سن لینا، خالی از فائدہ نہیں۔‘‘

آپ شرح المنہاج میں فرماتے ہیں:

((لا یصل عندنا ثواب القرأۃ علی المشہور والمختار الوصول اذا سئال اللّٰہ ایصال ثواب قرائتہٖ وینبغی الجز بہ لانہ دُعائ۔ فاذا جاز الدّعاء للمیت بما لیس للداعی فلان یجوزُبما ھو لہ اوفی ویبقی الامر فیہ موقوفاً علی استجابۃ الدعاء وھذا المعنی لا یختص بالقراء ۃ بل یجزی فی سائرا الاعمال والظاہر ان الدعاء متفق علیہ انہ ینفع المیت والحی القریب والبعید بوصیۃٍ وغیرھا وعلی ذالک احادیث کثیرۃ بل کان افضل ان یدعو لاخیۃ بظھر الغیب انتھیٰ ذکرہ فی نیل الاوطار))

’’یعنی ہمارے نزدیک مشہور قول پر قرآت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے۔ اور مختار یہ ہے کہ پہنچتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ سے قرأۃ قرآن کے ثواب پہنچنے کا سوال کرے (یعنی قرآن پڑھ کر دعا کرے اور یہ سوال کرے کہ یا اللہ اس قرأت کا ثواب فلان میت کو پہنچا دے) اور دعا کے قبول ہونے پر موقوف رہے گا۔ (یعنی اگر دعا اس کی قبول ہوئی تو قرأت کا ثواب میت کو پہنچے گا۔ اور اگردعا قبول نہ ہوئی تو نہیں پہنچے گا) اور اس طرح پر قرأت کے ثواب پہنچنے کا جزم کرنا لائق ہے۔ اس واسطے کہ یہ دعا ہے۔ پس جب کہ میت کے لیے ایسی چیز کی دعا کرنا جائز ہے۔ جو داعی کے اختیار میں نہیں ہے۔ تو اس کے لیے ایسی چیز کی دعا کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا، جو داعی کے اختیار میں ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ دعا کا نفع میت کو بالاتفاق پہنچتا ہے۔ اور زندہ کوبھی پہنچتا ے۔ نزدیک ہو خواہ دور ہو۔اس بارے میں بہت سی حدیثیں آئیں ہیں۔ بلکہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرے۔ واللہ اعلم۔‘‘

(ماہنامہ الاسلام دہلی جلد ۳ شمارہ ۴۔ ۱۹۵۸ئ))

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 346-350

محدث فتویٰ

تبصرے