سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(171) قبر پر مٹی ڈالتے وقت دُعا

  • 4361
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 9532

سوال

(171) قبر پر مٹی ڈالتے وقت دُعا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حاجیوں پر زیارت قبر شریف نبوی کا حرام یا مکروہ ہونا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبر پر مٹی ڈالتے وقت دُعا: {مِنْھا خَلَقْنَا کُمْ وَفجِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ط} میں اس تحریر میں اپنی تحقیق معاصرین اہل علم بالحدیث کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے معاصرین سے عرض کروں گا، کہ آپ حضرت بنظر تحقیق و بنظر غائر ملاحظہ فرما کر تقلیدی طریقہ سے یک سوئی فرماتے ہوئے ماہوا الحق کو واضح فرما دیں۔ میری تحقیق فی الواقع غیر محقق ہے تو لزوماً مطلع فرما دیں۔ تاکہ مجھے ((اِنَابَتُ اِلَی الْحَق)) کی باری تعالیٰ توفیق بخشے اور میں علی رؤس الخلائق اظہار کر دوں کہ میں اپنی تحقیق سے دست بردار ہوں۔ خداوند تعالیٰ امظہر حق کو اجر عظیم بخشے اور ہم تہہ دل سے ان کا شکریہ بھی ادا کریں گے۔

حضرت یہ جو ہمارے اہل علم وغیرہ میں رائض ہے کہ میت کو مٹی دیتے وقت پہلے لپ پر ((مِنْھَا خَلَقْنَکُمْ)) اور دوسری لپ پر ((وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ)) اور تیسری لپ پر ((وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْریٰ)) پڑھا جاتا ہے۔ یہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام اور اسلام سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ اس کو امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی تالیف اذکار میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے وہ لکھتے ہیں: ((السنۃ عن کان علی القبران یحتّٰی فی القبر ثلاث حثیات بیدیہ جمیعًا من قبل رأسہٖ)) ’’میت کے سرانے کی طرف سے قبر پر تین لپ مٹی ڈالنا مستحب ہے۔‘‘یہاں تک تو صحیح ہے۔ اس کے آگے امام نووی فرماتے ہیں۔

((قال جماعۃ من اصحابنا یستھب ان یقول فی الحثیثۃ الاولیٰ مِنْھَا خَلَقْنَکُمْ وفی الثانیۃ فِیْھَا نُعِیْدُکُمق وِفی الثالثۃ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی))(باب ما یقولہ عند الدفن)

یعنی ایک جماعت نے تینوں لپوں پر مذکورہ آیت کے تینوں ٹکڑوں کو علی الترتیب پڑھنا مستحب بتایا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ کے بعد جو بھی تشریف لائے بس مکھی پر مکھی مارے چلے گئے اور اس کو شافعیہ کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں۔ کسی نے اس سلسلہ حدیث کا حوالہ نہ دیا۔ ہمارے مفسر و محقق حافظ ابن کثیر تشریف لائے اور آپ نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا کہ:

((وفی الحدیث الذی فی السنن ان رسول اللّٰہ ﷺ حضر جنازۃ فلما دفن المیت اخذ قبضہ من التراب فالقاھا فی القبر وقال منھا خلقنکم ثم اخذ اُخرٰی وقال وفیھا نعیدکم اخریٰ وقال ومنھا نخرجکم تارۃً اخریٰ))

’’یعنی کتب سنن میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جناز میں شرکت فرمائی جب میت کو دفن کر دیا گیا تو آپ نے ایک لپ مٹی لی اور قبر میں ڈالی اور پڑھا ((منھا خلقکم)) پھر دوسری اور تیسری لپ پر علی الترتیب ((وفیھا نعیدکم)) اور ((منہا نخرجکم تارۃ اُخریٰ)) پڑھا۔‘‘

مفر ابن کثیر رحمہ اللہ نے سنن کی طرف اس حدیث کو منسوب کیا ہے۔ سنن کی مشہور کتابیں یہ چارہیں۔ ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور مزید برآں سنن دارمی و سنن بیہقی ہی۔ مگر یقینا یہ حدیث ان کتابوں میں قطعا نہیں ہے۔ علی وجہ البصیرت سے کہتا ہوں کہ یہ حدیث کسی ایک سنن میں نہیں ہے۔ اور وہ بھی مٹی ڈالتے وقت۔ البتہ مسند احمد و حاکم اور سنن امام بیہقی میں بروایت ابو امامہ رضی اللہ عنہ مذکور ہے کہ آنحضرت نے اپنی صاحب زادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو قبر میں اُتارتے وقت مذکورہ آیت پڑھی (مٹی دیتے وقت پڑھنا ثابت نہیں)، امام جزری رحمہ اللہ حصن حصین اور مختصر حصین میں اس طرح لکھا ہے: ((واذا وضعہ فی القبر قال مِنْھَا خَلَقْنَکُمْ)) اور ((بِاسْمِ اللّٰہِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ)) یعنی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی کو قبر میں رکھا تو یہ پڑھا: ((مِنْہَا خَلَقَکُمْ)) اور ((بِاسْمِ اللّٰہِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ))

امام جندی رحمہ اللہ نے یہ روایت حاکم کے حوالہ سے بیان کی ہے۔ اور یہی روایت مسند احمد اور سنن بیہقی وغیرہ میں بھی ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ شرح عدہ میں فرماتے ہیں: ((ضعف ابن حجر اسناد ھذا الحدیث)) ’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ضعیف کہا ہے۔‘‘ملاحظہ ہو حافظ کی تلخیص ص ۶۴ نیز نیل الاوطار جلد نمبر۳ ص ۳۲۱ میں حاکم اور بیہقی سے مع تصنیف مذکو رہے۔ یہ حدیث مسند احمد جلد نمبر ۵ ص ۲۵۴ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی گئی ہے، مجمع الزوائد جلد نمبر ۳ ص ۴۳ باب ((ما یقول عند ادخال المیت القبر)) میں یہ حدیث مذکور ہے۔ اور لکھا ہے کہ رواہ احمد و اسنادہٗ ضیعف، مستدکر حاکم جلد نمبر ۲ ص ۳۷۹ میں تفسیر سورۃ طہٰ میں اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن کے ص ۴۵۳ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد علامہ بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ اور نہ ہی کسی مخرج احادیث مستند محدث نے اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ زوائد مسند احمد کے بیان کرنے کا متعدد محدثین نے التزام کیا ہے۔ مگر کسی نے اس حدیث کے سوا کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ کنز العمال دیکھئے اس میں بھی صرف ام کلثوم رضی اللہ عنہ والی روایت ہے۔ اوربس لپ کے ڈالتے وقت مذکورہ آیت پڑھنے کی روایت بالسند کسی محدث نے بیان نہیں کی۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں مسند احمد اور حاکم سے یہی ام کلثوم رضی اللہ عنہ والی روایت بیان کیا ہے۔ساتھ ہی محول بالا ابن کثیررحمہ اللہ کا مضمون تقلیداً نقل کر دیا ہے۔ نہ کہ تحقیقاً ہمارے والا جاء صدیق الحسن بھوپالی نے بھی اپنی تفسیر فتح البیان میں امام شوکانی رحمہ اللہ کی تقلید کی اور انہی کی تفسیر کی عبارت نقل کر دی۔ صرف مکھی پر مکھی ماری، کسی تحقیق کے طریقہ سے نہیں لکھا۔

اب ان سے قدرے نیچے آئیے، مولانا وحید الزماں رحمہ اللہ مترجم صحاح ستہ ابن ماجہ کے ترجمہ میں جواب قطب الدین دہلوی رحمہ اللہ کی مظاہر الھق کی تقلید میں وہی مضمون لکھتے ہیں۔ مطبوعہ نظامی ۱۳۱۴ھ زیر حدیث جعفر بن محمد عن ابیہ مرسلاً روایت کی احمد رحمہ اللہ نے ساتھ اسناد ضعیف کے کہ حضرت کہتے تھے ساتھ پہلی لپ کے ((مِنْہَا خَلَقَکُمْ))اور ساتھ دوسری لپ کے ((وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ)) اور ساتھ تیسری لپ کے ((وَمَنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَرَۃً اُخْرٰی)) انتہی یہ عبارت مظاہر الحق کی ہے۔ اسی عبارت کو مترجم ابن ماجہ مولانا وحدید الزماں نے بھی نقل کر دیا۔ وہ مکھی پر مکھی ماری گئی ہے۔ مجھے اپنے مولانا عبد الرحمین صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ پرتعجب ہے کہ ایک مشہور محقق ہوتے ہوئے اپنی کتاب الجنائز کے ص ۴۵ پر علمائے حنفیہ اور شافعیہ سے مسحتب ہونے کو لکھ کر اس کی تائید میں لکھتے ہیں۔ مسندا حمد بن حنبل میں اس بارے میں ایک حدیث ضعیف آتی ہے آپ اس کے حاشہ میں بایں اسلوب تحریر فرماتے ہیں۔ ((قال القاری فی المرقاۃ ص ۲۷۷ ج ۲ وروی احمد باسناد ضعیف انہ یقول مع الاولیٰ مِنْھَا خَلَقْنَکُمْ ومع الثانیۃ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ ومع الثالثۃ وَمِںْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی)) نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مولانا وحید الزامن کو نواب قطب ادلین سے دھوکہ ہوا اور نواب قطب الدین کو ملا علی قاری کی مرقات سے دھوکہ ہوا اور ملا علی قاری کو ابن کثیر وغیرہ سے دھوکہ ہوا۔ یہ ہے اس کی اصل حقیقت ۔ کیا کوئی محب حدیث اصل تحقیق اس گتھی کو سلجھا سکتے ہیں۔ اور تحقیق قلم سے طمانیت قلبی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں۔ ((وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز)) خداوند کریم تقلید کا منہ کانا کرے۔ اس مرض نے اچھوں اچھوں کو نہیں چھوڑا۔ پھر میں علمائے وجہ البصیرت یہ کہتے نہیں رہ سکتا کہ قبر پر مٹی ڈالتے وقت پہلی، دوسری، تیسری لپ پر مذکورہ بالا آیت کا پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ محض ایجاد قوم ہے۔ اور بس اس سے احتراز لازم ہے۔

(اخبار اہل حدیث دہلی ج ۱۷ ش ۵، ص ۲۹۱ جلد۲)

ہو جائے۔ چنانچہ ایسا بھی ہوا فرماتے ہیں:

((سبب کشف قبر النبی ﷺ ان السماء لما رأت قبرہ بکت وسال الوادی من بکائھا قل تعالیٰ ثَمَا بَکَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَائَ وَالْاَرْضُ حکایۃ عن حال الکفار فیکون امرھا علیٰ خلاف ذلک بالنسبۃ الی الابرار انہ))

یہ حدیث دارمی کی ہے۔ امام دارمی نے اس پر بایں الفاظ باب منعقد کیا ہے۔ ((باب مَا اکرم اللّٰہ تعالٰی نبیہ ﷺ بعد موتہ)) ’’یعنی نبی علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ ایک آپ کا معجزہ و کرامت اللہ تعالیٰ نے ظاہر کی ۔‘‘گویا یہ آپ کا یہ ایک خاصہ ہوا کسی دوسرے کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔ کتاب مصاباح الظلام کے صفحہ ۱۱۰ میں ہے۔ ((فلیس فیہ حجۃ للمبطل)) یعنی اس حدیث سے اہل بدعت کی کوئی دلیل نہیں۔ اسی واسطے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں صلحاء بھی تھے اور شہداء بھی تھے۔ تمام صحابہ اولیاء اللہ تھے۔ مگر کسی صحابی نے کسی قبر کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ از منہ خیر القرون میں جب بارش بند ہو جاتی تھی تو نماز استسقاء ادا کرتے تھے جیسا کہ صحاح وسنن و مسانید میں ثابت ہے کہ:

((اَنَّ رسول اللّٰہ ﷺ صلی فی الاستسقاء رکعتین والصحابۃ فی زمن عمر وغیرہ صلّوا واستشفعوا بالعبّاس وغیرہ ولم یکشفوا عن قبرہ ولو کان مشروعا لما عدلوا عنہ الخ کذا فی تلخیص کتاب الاستغاثہ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رح ص ۲۹))

’’یعنی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حدیث ہذا کے متعلق فرماتے ہیں کہ جدب دیار قحط امطار کے وقت نبی علیہ السلام سے نماز استسقاء ثابت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی خلافت فاروقی میں نماز پڑھی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرائی۔ نبی علیہ السلام کی قبر نہیں کھولی۔ نہ آپ کا وسیلہ لیا۔ اگر ایسا کرنا شروع ہوتا تو کبھی اس سے عدول نہ کرتے۔‘‘

شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ بلاغ المبین صفحہ ۱۷۱ میں فرماتے ہیں۔ جا ثابت شد کہ توسل بگزشتگان وغائبان جائز نہ دشتند وگرنہ عباس رضی اللہ عنہ از سرور عالم نبود چرانگفت تگوسل می کردیم بہ پیغمبر تو والمال توسل می کنب بروح پیغمبر تو ﷺ۔یعنی اس سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ اور غائبوں کا وسلم پکڑنا صحابہ رضی اللہ عنہ جائز نہیں سمجھتے تھے ورنہ حضرت عباس نبی علیہ السلام سے بہتر نہ تھے۔ اگر جائز تھا تو کیوں نہ کہا یا اللہ اب ہم تیرے نبی ﷺ کی روح کے ساتھ وسیلہ پکڑتے ہیں۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اغاشۃ اللفہان میں تنصیص کی ہے اس امر پر کہ شرک کی جڑ یہی مردوں کو پکارنا اور ان سے فریاد کرنا ہے۔ ((اِنَّ اَصْلَ الشِّرْکِ سَالِمٌ ھُوَ دُعَائُ الْمَوْتٰی وَالْاِستسقائۃ بِھِمْ)) پھرامام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حدیث ھذا۔

 

محمد بن حسن بن زبالہ نے بھی اپنی تصنیف اخبار مدینہ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن ابن زبالہ غیر معتبر شخص ہے۔ ایسوں کی بات قابل احتجاج نہیں۔

((وھذا العلم العام المتفق علیہ ولا یعارضہ بما یرویہ ابن زبالۃ وامثالہ ممن لا یجوز الاحتجاج بِہٖ ولو قال عالم یستحب عند الاستسقاء او غیرہ ان یکشف عن قبر النبی ﷺ او غیرہ من الانبیاء والصَّالحین لکان مبتدعا بدعۃ محالفۃ للسنۃ المشروعۃ عن رسول اللّٰہ ﷺ وعن خلفائِہٖ))

’’یعنی اگر کوئی عالم استسقاء وغیرہ مصیبت کے وقت نبی ﷺ یا دیگر انبیاء علیہ السلام یا دیگر انبیاء و صالحین کی قبر کا کھولنا اور ان سے امدا چاہنا مشروع و مستحب کہے تو وہ بدعتی ہے۔ نبی علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کا مخالف ہے۔‘‘

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب الاستغاثہ فی الرد علی البکری صفحہ ۲۸ میں ابو الجوزاء کی روایت کے دو جواب لکھے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ پہلا جواب تو یہ ہے کہ ابن زبالہ ضعیف و غیر قابل احتجاج ہے۔

صحابہ کرام سے بالاتفاق یہی ثابت ہے کہ وہ استسقاء کے وقت مسجد میں یا جنگل میں جا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے۔ اور یہی استسقاء مشروع ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس فعل یعنی کشف قبر میں ہر گز یہ دلیل نہیں کہ اہل قبور سے مدد مانگنا یا سوال کرنا جائز ہو۔ اس میں تو صرف یہ ہے کہ قبر کھو لدی تاکہ اللہ کی رحمت (بارش) نازل ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت انبیاء و صالحین پر نازل ہوتی رہتی ہے۔ اس میں نہ تو کوئی اہل قبو رسے سوال ہے نہ کسی چیز کی طلب ہے نہ فریاد ہے۔ کیونکہ میت و غائب کو فریاد رس سمجھنا خواہ نبی ہو یا ولی ہر گز جائز نہیں۔ اگر یہ جائز ہوتا تو سب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے کرتے حالانکہ سلف میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں کیا۔ پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے استمداد و استغاثہ بالاموات پر دلیل پکڑنا بالکل باطل ہے شیطان نے اس سے بہت سے لوگوں کو دھوکہ دیا۔ اسی واسطے حضرت عمر رضی اللہ تعلایٰ عنہ خلافت فاروقی میں سدًا للذریعۃ کشف قبر کی بھی ممانعت کر دی تھی۔ چنانچہ اہل قسطنطنیہ نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر کے ساتھ استسقاء کرتے اور اہل تستر دانیال نبی کی قبر و سجم کے ساتھ قحط سالی کے وقت ایسا ہی کرتے تھے۔ ابو موسیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تحریراً اس واقعہ کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عامل ابو موسیٰ کو لکھا کہ دن میں تیرہ قبر یں جدا جدا کھول دو۔ اور رات کو ایک قبر میں دانیال کو دفن کر کے ساری قبریں بھر دو حتی کہ لوگوں پر ان کی قبر مخفی ہو جائے۔ پتہ نہ چلے کہ کون سی قبر میں مدفون ہیں۔ تاکہ وہ آئندہ اس حرکت سے باز آئیں۔

((وقد روی ان اھل تسترۃ کانوا یفعلون ذٰلک بقبر دانیال وان ابا موسی کتب الی عمر رضی اللہ عنہ فی ذلک فکتب الیہ عمر اذا کان النھا فاحفر ثلاثۃ عشر قبراً ثم جعلہ فی احدھا لیخفی علیی الناس))

(ملاحظہ ہو کتاب المغازی لابن اسحاق وبیہقی وشعب الایمان وکتب الاستغاثہ لابن تیمیہ)

صیانۃ الانسان ص ۲۵۳ میں ہے۔

((حفرنا بالنھار ثلاثۃ عشر قبرا متفرقۃ فلمّا کان باللیل دفناہ وسوینا القبور کلھا لنعیۃ علی الناس الخ))

’’یعنی ہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق ایسا ہی کیا۔‘‘

علامہ محمد بشیر صاحب سہسوانی رحمہ اللہ نے کتاب مذکور میں دارمی کی اس حدیث کو جس میں ابراز قبر کا ذکر ہے۔ ضعیف و منقطع کیا ہے اس کی سند کے رواۃ پر جرح و قدح کی ہے۔ اس کے سات جواب لکھ کر غیر قابل احتجاج قرار دیا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کتاب الرد علی البکری ص ۶۸ میں فرماتے ہیں۔

((وَمَا رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃِ رضی اللّٰہ عنہا من فتح الکوۃ من قبرہٖ الی السّماء لینزل المطر فلیس بصحیح ولا یَثْبُتُ اِسْنَادُہٗ))

یعنی یہ حدیث صحیح نہیں نہ اس کی اسناد ثابت ہے۔ صفحہ ۶۹ میں لکھتے ہیں۔

((وَاَمَّا وجود الکوۃ فی حیاۃ عائشۃ فکذب بین ولو صح ذلک لکان حجۃ ودلیلا علی ان القو لم یکونوا یقسمون علی اللّٰہ بمخلوق ولا یتوسلون فی دعائہم بمیت ولا یسئلون اللّٰہ بہ وانما فتھوا علی القبر لتنزل الرحمۃ علیہ ولم یکن ھناک دعاء یقسمون بہ علیہ فاین ھذا من ھذا))

’’یعنی اول تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں روشن دان کا چھت ہی وجود ہی مفقود کذاب ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے تو اس میں ہمارے دلیل ثابت ہوتی ہے نہ کہ اہل بدعت کی۔ کہ دیکھو صحابہ کرام رضی اللہ عن اپنی دعائوں میں آپ ﷺ کا وسیلہ نہیں پکڑتے تھے۔ نہ اللہ تعالیٰ سے آپﷺ کا واسطہ دے کر سوال کرتے تھے۔ صرف انہوں نے قبر کے اوپر سے جگہ کھول دی تھی۔ تاکہ رحمت نازل ہو۔ پس کجا یہ فعل اور کجا اہل بدعت کا اہل قبور سے استغاثہ و استمداد۔‘‘

اسی واسطے حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کشف قبور کو جائز نہیں رکھا۔ بلکہ ہر ممکن طریق سے اس کا انسداد کیا تاکہ لوگ اس سے غلط استدلال کر کے شرک کے اندر مبتلا نہ ہو جائیں۔ جیسا کہ قصہ قبر دانیال اوپر مذکور ہوا۔ کتاب تبیعد الشیطان بتقریب اغاثۃ اللفہان میں لکھا ہے۔

((فانظر ما فی ھٰذِہٖ الْصۃ من صنع اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ تعبیۃ قبر ھٰذا الرجل لئلا یفتثن بہ الناس))

مصباح الظلام فی الرد علی من کذب علی الشیخ الامام مصنفہ شیخ عبد اللطیف ص ۱۱۰ میں مرقوم ہے۔

((ولیس فی انزال المطر اذ کشفت اجساد الانبیاء او قبورھم مَا یستدل بہٖ علی جوازا التوسّل الشَّرکی بھم))

’’یعنی انبیائی جسم یا قبر کے کشف سے بارش ہونے پر وسیلہ شرکیہ کے جواز پر استدلا ل کرنا قطعاً غلط ہے۔‘‘

اسی کتاب میں ہے۔ ((وقد خاب عمر من ان یشرک بہ ویُجْعَلَ نِدًّا لِلّٰہِ)) ’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دانیال نبی علیہ السلام کے جسم کو (جو شہر تستر میں ہر مزان کے بیت المال میں ایک چارپائی پر رکھا ہوا تھا) دفن کرا دیا کہ کہیں مشرک لوگ اسے اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر اللہ کا ندو شریک نہ بنا لیں۔ اسی طرح علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تفسیر سورہ اخلاص میں لکھا ہے۔ نیز اقتصاء الصراط المستقیم صفحہ ۱۶۲ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ اہل قبور سے مدد چاہنا یا جلب منفعت و دفع مضرت کی غرض سے پکارنا یا ان کی قبروں کے پاس آ کر دعا مانگنا بایں خیال کہ یہاں آ کر دعا ان کی برکت سے جلد قبول ہو گی یا ان سے استغاثہ و استسقاء کرنا حرام و شرک ہے۔

مسئلہ:

   واضح ہو کہ ڈھیلے مٹی پر سورہ اخلاص وغیرہ پڑھ کر قبر میں رکھنا قول و فعل آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں و نیز قول و فعل تابعین و تبع تابعین وطبقات ہف گانہ فقہاء حنفیہ رحمہ اللہ وغیرہ سے بھی کتب معتبرہ ومعتمدہ میں ثابت نہیں، غرض اس کی کچھ سند نہیں ہے۔ اور جو کسی نے بلا سند کسی کتاب غیر معتبر میں لکھا ہو اس کا ہر گز اعتبار نہیں کیونکہ کتب اصول فقہ اور حدیث میں مقرر ہو چکا ہے کہ حدیث بلا سند حجت نہیں اور اسی طرح ہے جواب نامہ کی کچھ اصل نہیں پائی جاتی شرع شریف میں ہے۔

((وقد افتی ابن الصلاح بانہ لا جوزان یکتب (؎۱) علی الکفن لیس والکھف ونحوھما خوفا من صدید المیت کذا فی رد المختار حاشیۃ الدر المختار))

(؎۱)      جائز نہیں ہے کہ کفن پر سورۂ یٓس یا کہف یا اور کوئی سورہ لکھی جائے کیونکہ میت کی پیپ سے اس کے آلودہ ہونے کا خوف ہے۔

اور اسی طرح جمع ہو کر تیسرے دن قرآن مجید پڑھنا جیسا کہ معمول ہو رہا ہے۔ یا چنوں پر کلمہ پڑھنا یہ بھی قرون ثلثہ اور ائمہ اربعہ اور محدثین اور دیگر فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ سے منقول نہیں۔ اور اسی طرح سیوم اور دسواں بیسواں چہلم و چھ ماہی برسی وغیرہ رسمیں بھی کہیں سے ثابت نہیں بلکہ یہ رسمیں ہنو د او رکفار کی ہیں اجتناب اور حذران امور مذکورہ سے واجب ہے اور ان رسموں میں صریح تشبہ ساتھ کفار کے پایا جاتا ہے۔ اور فرمایا آنحضرت ﷺ نے ((من تشببہ بقوم فھو منھم کذا فی المشکوٰۃ وبلوغ المرام)) ’’جو کسی قوم سے مشابہت کرے وہ انہیں میں سے ہے۔‘‘ان امور کو فتاوی جامع الروایات اور شرح مہذب نووی اور فتاویٰ قرطبی اور نصاب الاحتساب اور رسالہ علامہ حسام الدین عبد الوہاب متقی وغیرہ میں بدعت شنیعہ اور کراہت شدیدہ لکھا ہے اور اسی طرح سے متملی و صغیری شرح منیۃ المصلی و فتاویٰ بزازی وغیرہ میں بھی صراحتاً بدعت اور کراہت ان امور مذکورہ کو لکھا ہے اور طعام پر فاتحہ وغیرہ پڑھنا بھی تشبہ ہنود کے ہے کیونکہ مسلمان جاہل فاتحہ کہتے ہیں۔ا ورہنود کے برہن اسلوک کہتے ہیں یہ واہیات رسمیں کفار سے مسلمان جاہلوں نے اخذ کی ہیں یہ امور مذکورہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ و تابعین و مجتہدین متقدمین اور متاخرین سے ہر گز ثابت نہیں، اور نہ ان امور مذکورہ کا تعامل اور رواج قرون ثلثہ وغیرہ میں پایا گیا۔

((وفی تلخیص السنن قال مؤلفۃ رحمہ اللہ ان ھذا الاجتماع فی الیوم الثالث خصوصا لیس فیہ فرضیۃ ولا فیہ وجوب ولا فیہ سنۃ ولا فیہ استحباب ولا فیہ منفعۃ ولا فیہ مصلحۃ فی الدین بل فیہ طعن ومذمۃ ومالمۃ علی السلف رحمہ اللہ حیث لم یتنبھوا لہ بل علی النبی ﷺ حیث ترک حقوق المیت بل علی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ حیث لم یکمل الشریعۃ وقد قال اللّٰہ تعالیٰ فی تکمیل الشریعۃ المحمدیۃ ﷺ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا الایۃ کذا فی الرسالہ للعالمۃ حسام الدین الشھری بالمتقی وذکر البزازی انہ یکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث وبعد الا سبوع ونقل الطعام الی المقربۃ واتخاذ الدعوۃ لقرأۃ القرأن وجمع الصلحاء والقراء للختم او القراٗۃ سورۃ الانعام والاخلاص قال والحاصل ان اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القراٰن لاجل الاکل یکرہ وان اتخذ طعاما للفقراء کان حسنا انتہی ما فی الصغیری والکبیری والعینی شرح الھدایۃ ورد المختار وغیرہ من کتب الفقہ وقال النووی فی شرح المنھاج اتخاذ الطعام فی الیوم الثالث والسادس والعاشر والعشرین وغیرھما بدعۃ مستقبحۃ ھکذا فی جامع الروایات وغیرھا من کتب الفقہ))

’’یہ تیسرے دن کا اجتماع جو خصوصاً منعقد ہوتا ہے یہ نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت نہ مستحب نہ اس میں کوئی فائدہ ہے نہ کوئی دینی مصلحت ہے بلکہ اس میں ایک طرح کا سلف صالحین پر الزام ہے کہ ان کو یہ مفید باتیں معلوم نہ ہو سکیں۔ بلکہ نبی ﷺ پر بھی کہ انہوں نے میت کے حقوق چھوڑ دئیے۔ بلکہ یہ الزام تو اللہ تعالیٰ پر بھی آئے گا کہ اس نے شریعت کو مکمل نہ کیا ۔اور ویسے ہی کہہ دیا کہ میں نے آج تمہارا دین مکمل کر دیا۔ اور اپنی نعمتیں تم کو پوری دے دیں۔ اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔ علامہ حسام الدین المعروف متقی کے رسالہ میں بھی ایسا ہی ہے۔ اور بزازیہ می ہے کہ پہلے اور تیسرے اور ساتویں روز کھانا تیار کرنا اور اس کو قبر پر لے جانا اور قرآن پڑھنے کے لیے دعوت پکانا اور نیک لوگوں اور قاریوں کو ختم قرآن یا سورہ انعام یا اخلاص پڑھنے کے لیے بلانا مکروہ ہے۔ حاصل یہ کہ قرآن پڑھنے کے وقت قاریوں کے لیے کھانا تیار کرنا مکروہ ہے اور اگر فقیروں کے لیے کھانا پکایا جائے تو اچھا ہے۔ امام نووی نے شرح منہاج میں کہا تیسرے، چھٹے، دسویں، اور بیسویں دن کھانا تیار کرنا ایک بدترین قسم کی بدعت ہے۔‘‘

اور ایصال ثواب مالی یا بدنی بلا تقرر و تعیین وقت اور دن میں جب چاہے پہنچا دے درست اور طریقہ مسلوکہ فی الدین ہے۔ اور امور مذکورہ بالا محدث فی الدین ہیں جیسا کہ علمائے ربانی محققین پر مخفی نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

 حررہ سید محمد نذیر حسین عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 284-293

محدث فتویٰ

تبصرے