سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(157) قبروں پر عرس کرنا، جھنڈا کھڑا کرنا وغیرہ

  • 4347
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1421

سوال

(157) قبروں پر عرس کرنا، جھنڈا کھڑا کرنا وغیرہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبروں پر عرس کرنا، جھنڈا کھڑا کرنا، گلی کوچوں میں باجے بجاتے پھرنا اور اس قسم کی خرابیاں کرتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ کام سخت گناہ کے ہیں بغیر کسی اور خرابی کے صرف عرس کرنا بھی بدعت اور سخت گناہ ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ نہ صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ کا عرس کیا نہ تابعین نے کیا، نہ آئمہ دین نے حکم دیا یہ سب رسومات پیچھے کی بنی ہوئی ہیں۔

تشریح:

… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پختہ بنانا قبر کا چونہ اینٹ اور پتھر وغیرہ سے درست ہے یا نہیں اور بلند قبر کا پست کر دینا درست ہے یا نہیں او رجو قبر یں کہ پتھرسے سنگین اور پتہ بنائی گئی ہوں، ان سے پتھروں کا علیحدہ کرنا ور ان کا بیع کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا

الجواب:… پختہ بنانا قبر کا چونہ اور اینٹ اور پتھر وغیرہ سے درست نہیں ہے۔ اور بلند قبروں کا جو ایک بالشت سے زیادہ بلند ہوں پشت کرنا درست ہے، یہاں تک کہ بقدر ایک بالشت کے بلندی باقی رہ جائے، اور جو قبریں کہ پتھر سے سنگیں اور پختہ بنائی گئی ہوں، ان کو مہندم کر کے پتھر علیحدہ کر لینا درست ہے، چونکہ وہ پتھر متعلق قبر سے نہیں ہے اس لیے اس کا بیع کرنا شرعاً درست ہے۔ ((عن جابر قال نھی رسول الہ ﷺ ان یحبصص القبر)) ’’نہی کرد آنحضرت ﷺ از گج کردن گور۔‘‘وگفتہ اندا گر گل کنند تا ویران نشود بر گوراست۔ ((واَن یُبْنٰی عَلَیْھَا)) ونہی کرد از آنکہ بنا کردہ شود برگور۔ بعض گفتہ اندر کہ مراد بنا کردن است از سنگ ومانند آں نیز مکروہ ومنہی عنہ است الخ رواہ مُسلم کذا فی المشکوۃ واسعۃالمعات شرح المشکوٰۃ وایضا ((فیہما عن جابر رضٰ اللہ قنہ قال نھیٰ رسول اللّٰ)ہ ﷺ ان یحبصص القبور)) نہی کرد آں حضرت آنچہ گچ کردہ شود قبر ہا از جہت آنچہ دروست از تکلف و تزئین۔ دورس داشتہ است حسن بصری گل کردن و شافعی گفتہ مسحب است گل کردن۔ دورخانیہ گفتہ تطیین قبو لا باس بہ کذائی مطالب المؤمنین۔ ونیز گفتہ اند کہ مکروہ است برپا کردن الواح مکتوبہ کہ بے فائدہ ہے۔ انتہیٰ:

((ویکرہ الاحرا الاحر والخشب لا نھما لاحکام ابناء والقبر موضع البلیٰ کذا فی الھدایۃ۔ ویکرہ الاجر والخشب کذا فی شرح الوقایۃ والکننز ای یکرہ ان یوضع علی قلبر اجر وخشب لان النبی ﷺ نھی ان یشبہ القبو بالعمروا والاجر ولاخشب للعمران ولا نھما یستعملان للزینۃ ولا حاجۃ ایھا للمیّت کذا فی بالبداع ھکذا فی المستخص شرح الکنز وغیرہ واصل النھی التحریم کام ھو مذکور فی اصول الفقہ کذا فی مأیۃ المسائل فی تحصیل الفضائل فی البحر الرائق ویسنم قدر شبر وقیل قدر اربع اصابع۔ انتہیٰ وفی در المختار یسنم مندوباوضی الظھریۃ وجوباً قدر شبرا انتھی وکذا فی العالمگیریۃ وغیرھا عن ابی الھیاج الاسدی قال قال لی عل الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللّٰہ ﷺ ان لا تدع تمثالاً الاطمسۃ ولا تبراً مشرفاً الا سوّیتہ ونہ گذاری گو بلند را مگر آنکہ بر زمین برابر ہموار گنی یعنی پست کنی چنانکہ نزدیک بزمین باشد آں قدر کہ پیدا و نمایاں بود مقداریک شر چنانکہ سنت است رواہ مسلم کذا فی المشکوٰۃ واشعۃ اللمعات))

واللہ اعلم بالصواب، حررہ سید شریف حسین عفی عنہ، سید محمد نذیر حسین (دہلوی) فتاویٰ نذیریہ ص ۴۴۳ ج۱)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 277

محدث فتویٰ

تبصرے