قبر میں میت کو کرم وغیرہ کھا جاتے ہیں۔ بعض دفعہ کوئی بیرونی جانور نیولہ وغیرہ بھی قبر میں گھس کر لحم میت کو کھاتا ہے آیا میت کو اسے ایذاء پہنچتی ہے؟
مشکوٰۃ ((باب البکاء علی المیت)) فصل نمبر۳ میں ہے۔
((عن عمرو بن حزم قال رانی النبی ﷺ متکئا علی قبر فقال لا توذ صاحب ھذا القبر ولا توذہٖ رواہ احمد))
’’عمرو بن حزم کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا فرمایا اس قبر والے کو ایذا نہ دو۔‘‘
مشکوٰۃ کے اس باب فصل نمبر ۲ میں ہے۔
((عن عائشۃ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال کسر عظم المیت ککسرہٖ حیًا رواہ احمد مالک وابو داؤد وابن ماجۃ))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میت کی ہڈی توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔‘‘
اس قسم کی کئی روایتیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ میت کو تکلیف ہوتی ہے مگر بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر اسباب کا اثر میت پر نہیں۔ عینی شرح بخاری میں ہے۔
((مَرَّ عبد اللّٰہ بن عمر علی قبر عبد الرحمٰن بن ابی بکر اخی عائشۃ رضی اللہ عنہ وعلیہ فسطاط مضروب فقال یا غلام انزعہ فانما یظلہ عملہ فقلال الغلام تضر بنی مولاقی قال کلّا فنزعہ))
’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی کی قبر پر گزرے۔ اس پر خیمہ لگا ہوا تھا، فرمایا: اے غلام اس کو اکھاڑ دے، کیونکہ اس کو اس کا عمل سایہ کرے گا۔ غلام نے کہا میری مالکہ مجھے مارے گی، فرمایا: ہر گز نہیں۔ پس اس کو اُکھاڑ دیا۔‘‘
اسی طرح ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے وفات کے وقت وصیت کی کہ میری قبر پر خیمہ نہ گاڑنا۔ ان روایتوںسے معلوم ہوتا ہے کہ میت کو دنیوی اشیا ء کا فائدہ یا نقصان نہیں۔ نیز حدیث میں ہے۔ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے چچا جنگ احد میں شہید ہوئے اور کفار ان کے کان، ناک وغیرہ کاٹ کر شکل بگاڑ دی تو رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا کہ میر پھوپھی صفحہ (حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہن) برداشت کرے تو میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو اسی حال میں چھوڑ دوں کہ کتے بلے کھا جائیں اور قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے جمع کیا جائے۔ اس کہنے سے مطلب آپ کا یہ تھا کہ اللہ کی را ہ میں ذلت حقیقت میں ذلت نہیں، لیکن عورتوں کے دل کمزور ہوتے ہیں۔ اس لیے دفن مناسب ہے، یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ میت زندہ کی طرح نہیں ورنہ زندہ کو بھی اس طرح دکھ دینا درست ہوتا۔ پھر ظاہر پر غور کیا جائے تو اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ میت کو دنیوی اسباب کی تکلیف نہیں۔ مثلاً زندہ کو قبر میں دبا دیں تو اس کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ (؎۱) ہر گز نہیں کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ ہاں میت کا وقات اور اس کی حیات کی وضع کو قائم رکھنے کے لیے جس قدر حدیث میں آ گیا ہے اتنا کرنا چاہیے، مثلاً میت کو غسل عزت کے ساتھ دیا جائے ۔ کفن اچھا پہنایا جائے۔ عزت کے ساتھ قبر میں اُتارا جائے۔ اسی طرح ہڈی توڑنے سے ممانعت بھی اس وقار پر حمل کرنی چاہیے۔ اور ایذاء سے نبی ﷺ کی حدیث کا مطلب بھی یہی لینا چاہیے کہ اس کی توہین نہ کی جائے۔ پس اس صورت میں سب روایتوں میں موافقت ہو جائے گی۔ لیکن یہ جو کچھ ذکر ہوا ہے بدنی ایذاء کے متعلق ہے۔ رہا سماع کا مسئلہ تو اس کی تفصلی کے لیے ہمارا رسالہ سماع موتیٰ ملاحظہ کریں بلکہ اس میں بدنی ایذاء کے متعلق بھی کافی مواد موجود ہے۔
(؎۱) تو کیا میت کو بھی دبانے سے تکلیف ہوتی ہے۔
(عبد اللہ امر تسری روپڑی) (فتاویٰ اہل حدیث جلد ۲ ص ۴۹۰)