سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) کیا مزار پر نذر و نیاز چڑھانا اور قبر پر قرآن مجید پڑھنا جائز ہے

  • 4339
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1744

سوال

(149) کیا مزار پر نذر و نیاز چڑھانا اور قبر پر قرآن مجید پڑھنا جائز ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مزار پر نذر و نیاز چڑھانا اور قبر پر قرآن مجید پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نذر و نیاز کا قبر پر چڑھانا اور اس کا کھانا حرام ہے، خواہ میوہ ہو یا کوئی اور شئے۔ قرآن مجید میں ہے:

{وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ}

’’جو غیر اللہ کی تعظیم کے لیے نامزد کی جائے وہ حرام ہے۔‘‘

رہا قرآن مجید پڑھنا سو اس کی دو صورتیں ہیں۔

پہلی صورت:… ایک یہ ہے جیسے آج کل رواج ہے کہ قبر پر مجاور بن کر پڑھتے ہیں، نیز سال کے بعد عرس کرتے ہیں، دور دراز سے لوگ جمع ہوتے ہیں اور قبر پر قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اور حدیث میں ہے:

((مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہٗ فَھُوَ رَدٌّ)) (مشکوٰۃ باب الاعتصام)

’’یعنی جو شخص ہمارے دین میں نئی بات پیدا کرے جو اس سے نہیں وہ مردود ہے۔‘‘

دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی خاص طریق مقرر نہ کرے، بلکہ جب اتفاق پڑے عام طور پر قبروں کی زیارت کرے اور اس وقت قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھ کر اس کا ثواب میت کو بخش دے۔ اس میں اختلاف ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ اس کے قائل ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ اس کے قائل نہیں۔ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں بحوالہ شرح الصدور سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

((اختلف فی وصول ثواب القرأن المیت فجمہور السلف والائمۃ الثلاثۃ علی الوصول وخالف فی ذلک امامنا الشافعی رحمہ اللہ مرقات جلد نمبر ۲ ص ۳۸۲))

’’یعنی میت کو قرآن مجید کا ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے، جہور سلف اور تین امام پہنچنے کے قائل ہیں اور ہمارے امام شافعی رحمہ اللہ اس کے قائل نہیں۔‘‘

ملا علی قاری رحمہ اللہ نے شرح فقہ اکبر میں لکھا ہے:

((اختلف العلماء فی العبادات البدنیۃ کالصوم والصلوٰۃ قرأۃ القرأن والذکر فذھب ابو حنیفۃ رحمہ اللہ وجمہور السلف الی وصولھا والمشہور من مذہب الشافعی رحمہ اللہ ومالک عدم وصولھا))

’’یعنی عبادات بدنیہ کے ثواب پہنچنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ اور جمہور سلف پہنچنے کی طرف گئے ہیں۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک کے مذہب میں نہ پہنچنا مشہور ہے۔ ان عبارتوں میں امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور جمہور کا مذہب ثواب کا پہنچنا بتلایا ہے۔‘‘

امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب نہ پہنچنا بتلایا ہے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کے دو قول نقل کیے ہیں۔ پہلی عبارت میں پہنچنے کا ذکر ہے۔ دوسری میں نہ پہنچنے کا امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے موافق بھی بعض احادیث آئی ہیں۔

اول حدیث:

ابو محمد سمرقندی رحمہ اللہ نے فضائل ((قل ہو اللّٰہ احد)) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت کی ہے کہ جو شخص قبروں کے پاس سے گزرے اور ((قل ھو اللّٰہ احد)) گیارہ بار پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخش دے تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب دیا جائے گا۔

دوم حدیث:

ابو القاسم سعید بن زنجانی رحمہ اللہ نے اپنے فوائد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص قبرستان میں جائے۔ پھر سورت فاتحہ، قل ہو اللہ احد، اور الہاکم التکاثر پڑھ کر کہے کہ یا اللہ میں نے جو تیرا کلام پڑا ہے۔ اس کا ثواب اس قبرستان کے مؤمن اور مسلمان مردوں کو بخش دے تو وہ مردے اللہ تعالیٰ کے پاس اس کی سفارش کریں گے۔

سوم حدیث:

عبد العزیز خلال کے شاگرد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو، پھر سورت یٓس پڑھے تو اللہ تعالیٰ مردوں پر تخفیف فرماتا ہے۔ اور مردوں کی تعداد کے برابر اس کو نیکیاں ملتی ہیں۔

چہارم حدیث:

قرطبی نے اپنے تذکرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت کیا ہے کہ جب کوئی مومن آیۃ الکرسی پڑھے، اور اس کا ثواب مردوں کو بخشے تو اللہ تعالیٰ مشرق اور مغرب کی ہر قبر میں نور داخل کر دیتا ہے۔ اور اُن کی خوابگاہ کو وسیع کر دیتا ہے اور پڑھنے والے کو ساٹھ نبی کا ثواب دیتا ہے۔ اورہر میت کے مقابلہ میں اس کے واسطے دس نیکیاں لکھتا ہے۔

پنجم حدیث:

دارقطنی میں ہے: کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ان کی زندگی میں نیکی کیا کرتا تھا۔ ان کے مرنے کے بعد ان سے کس طرح نیکی کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مرنے کے بعد یہ نیکی ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے واسطے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لیے بھی روزہ رکھ۔

تبصرہ:

پہلی چار حدیثوں میں قرآن مجید کے ثواب پہنچنے کا ذکر ہے۔ اور پانچویں میں دیگر بدنی عبادات (نماز روزہ) کے ثواب پہنچنے کا بیان ہے۔ بعض اور روایات بھی آئی ہیں۔ مگر سب ضعیف ہیں صحیح کوئی نہیں ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کتاب الاذکار میں لکھا ہے کہ محمد بن احمد مروزی رحمہ اللہ نے کہا ہے میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سنا ہے فرماتے تھے جب تم لوگ قبرستان جائو تو سورۃ فاتحہ، قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس اور قل ہو اللہ احد پڑھو اور اس کا ثواب مردوں کو بخشو، مردوں کو ثواب پہنچے گا۔

امام سیوطی رحمہ اللہ نے قرأت قرآن کی روایتیں ذکر کر کے لکھا ہے اگرچہ یہ ضعیف ہیں لیکن ان کا مجموعہ بتاتا ہے کہ ان کی کچھ اصل ہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے ان کے مجموعہ پر حسن یا صحیح ہونے کا حکم اس لیے نہیں لگایا کہ ان میں ضعف زیادہ ہے۔ اگر ضعف تھوڑا ہوتا تو مجموعہ مل کر حسن یا صحیح کے درجہ کو پہنچ جاتا، خیر ان پر عمل سے روکا نہیں جاتا، خاص کر جب کہ امام بھی اسی طرف گئے ہیں۔ چنانچہ اوپر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ سے نقل ہو چکا ہے۔ مشکوٰۃ میں حدیث ہے اس میں دفن کے وقت سر کی طرف شروع آیات سورہ بقرہ اور پائوں کی طرف اخیرآیات بقر کی پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔ اگرچہ یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ مگر مذکورہ بالا روایات کی مؤید ہے، بہرصورت عمل میں کوئی حرج نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف بھی معتبر ہے۔ مگر عمل کا کوئی طریق اپنی طرف مقرر نہ کرنا چاہیے، جیسے آج کل مروج ہے کہ قبروں پر مجاور بن کر یا گھروں یا مسجدوں میں حلقے باندھ کر پیسوں یا بغیر پیسوں کے پڑھا جاتا ہے اس کا ثبوت نہیں۔ خاص کر پیسے لے کر ختم کرنا اور اس کا ثواب پہنچانا یہ کسی کا مذہب نہیں، بلکہ یہ پیٹ کے بندوں کا اختراع نہیں تو دوسرے کو اس سے کیا فائدہ، بلکہ اس طرح پیسے لینے دینے کا گناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے پناہ مانگی ہے۔ جو تراویح میں پیسے لے کر سناتا ہے۔ اور حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز ہی نہیں ہوتی، اور عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے بھی اس کے قریب مروی ہے۔ ملاحظہ ہو قیام اللیل ص ۱۰۳

غرض مروجہ طریقہ ایصال ثواب کا طریق نہیں، ایصال ثواب کی اگر کوئی صورت ہو سکتی ہے تو صرف وہی ہو سکتی ہے جس کا ذکر روایات میں آیا ہے جیسے اوپر ذ کر ہو چکا ہے۔

(عبد اللہ امرتسری روپڑی) (فتاویٰ اہل حدیث ص ۴۷۰ ج ۲)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 256-259

محدث فتویٰ

تبصرے