سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) دس سال کی عمر کا لڑکا بالغ ہے یا نابالغ؟

  • 4317
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2040

سوال

(127) دس سال کی عمر کا لڑکا بالغ ہے یا نابالغ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوال:… (۱)       دس سال کی عمر کا لڑکا بالغ ہے یا نابالغ؟

           (۲)     اس کے جنازہ کی نماز میں کون سی دعا پڑھنی چاہیے۔

           (۳)    اس کے لیے دعا مغفرت؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب:… (۱)      پندرہ برس کی عمر سے پہلے جماع، یا بغیر جماع کے بیداری یا خواب میں انزال ہونے سے لڑکا شرعاً بالغ ہو جاتا ہے اور پندرہ برس کی عمر کو پہنچ جانے پر بغیر انزال کے بھی شرعاً بالغ سمجھا جائے گا۔

((قال الحافظ فی الفتح قد اجمع العلماء علی ان الاحتلام فی الرجال والنساء یلزم بہ العبادات والحدود وسائر الاحکام وھو انزال الماء الدافق سواء کان بجماع او غیرہٖٖ وسواء کان فی الیقظۃ او فی المنام واجمعوا علی ان لا اثر للجماع فی المنام الامع الانزال انتہی۔ ان ابن عمر قال عرضت علی النبی ﷺ یوم الخندق فلم یجز نی ولم یر فی بلغت (عبد الرزاق وابو عوانۃ وابن ھبان) قال الحافظ فی الفتح واستدل بقصۃ ابن عمر علی ان من استکمل خمس عشرۃ سنۃ اجریت علیہ احکام البالغین وان لم یحتلم فیکلف بالعبادات و اقامۃ الحدود الخ))

گرم ملکوں میں لڑکے د س گیارہ برس کی عمر میں محتلم ہو جاتے ہیں۔

((کما فی تھذیب التہذیب فی ترجمۃ عبد اللّٰہ ابن عمرو بن العاص لم یکن بینہ وبین ابیہ فی السن سوی احدی عشرۃ سنۃ))

معلوم ہوا کہ دس برس کی عمر میں احتلام کے ذریعہ بالغ ہونے کا احتمال ہے۔ ((والعشر زمن احتمال البلوغ بالاحتلام)) (السراج المنیر)

(۲)      بابالغ بچے کی نماز جنازہ میں بہتر یہ ہے کہ یہ دعا پڑھی جائے۔

((اَللّٰھُمَّ اجْعَلَہہُ لَنَا سَلَفًا وَفَرَطًا وَاَجْرًا اِذَا کَانَ الْمُصَلّٰی عَلَیْہِ طِفْلًا استحب ان یقول المصلی اَللّٰھُمَّّ اجْعَلْہٗ لَنَا سَلَفًا وَفَرَطًا وَاَجْرًا روی ذلک البیہقی من حدیث ابی ہریرۃ وروری مثلہ سفیان فی جامعہ عن الحسن نیل الاوطار ج ۴ ص ۱۰۶))

(۳)     حنابلہ اور احناف بچے کے لیے دعا استغفار کے قائل نہیں۔

((ففی الہدایۃ وَلَا یستغفر للصبی ولکن یقول اللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ الخ وقال ابن عابدین الحاصل ان مقتضی المتون والفتاویٰ وصریح غرر الاذکار الاقتصار فی الطفل علی اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا سََلَفًا وَفرطاً وحاصلہ انہ لا یاتی بشئی من دعاء البالغین اصلًا بل یقتصر علی مَا ذکر انتہی وفی المغنی لابن قدامۃ وان کان المیت طفلاً جعل مکان الاستغفار لہ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ الخ))

اور ملکیہ کے نزدیک بچوں کے لیے دعائے مغفرت جائز بلکہ مستحب ہے کما فی الشرح الکبیر (محدث دہلی جلد نمبر ۹ ش نمبر ۸)

توضیح الکلام:

… حنابلہ اور احناف کے نزدیک بچے کے لیے نماز جنازہ میں دعائے بخشش کی جائز نہیں جیسا کہ مفتی صاحب نے بیان فرمایا ہے لیکن حنابلہ اور احناف نے بخشش کی ممانعت پر کوئی دلیل قرآن اور حدیث سے بیان نہیں۔ ما سوا اس کے کہ بچہ کے لیے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ انہوں نے اس سے استدلال کیا ہے لیکن اس سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ عام جنازہ کی دعائوں میں سے یہ بھی ہے۔

((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمِیِّتِنَا الخ))

اس دعا میں ((وَصَغَیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا)) بھی ہے اس میں بچے اور جوان سب کے لیے بخشش کا ذکر ہے لہذا اس میں مالک مسلک زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے۔ (الراقم علی محمد سعیدی عفی عنہ)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 236

محدث فتویٰ

تبصرے