میت کی نماز جو حالت مرض و غشی وغیرہ میں فوت ہو گئی، اس کے ادا کرنے کی کیا صورت ہے، اگر ادا ن کیا جائے، تو میت کو مواخذہ ہو گا یا نہیں، اگر اس کا کفارہ ہے، تو کس قدر یا اس کے والی، اس کی جانب سے ادا کر سکتے ہیں؎؟
میت کے ذمہ جو فرائض باقی رہ گئے ہیں، اُن میں سے روزہ کے لیے تو یہ امر ثابت ہوا کہ اس کا ولی اس کی جانب سے روزہ رکھے، صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ صَامَ عَنْہٗ وَلِیُّہٗ))
لیکن نماز کے بارہ میں ((نِیَابَۃً)) ادا کرنا ثابت نہیں، بلکہ نسائی میں ابن عباس سے موقوفاً ثابت ہے۔ ((لَا یُصَلِّیْ اَھَدٌ عَنْ اَحَدٍ)) ’’یعنی کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز ادا نہ کرے۔‘‘نیل میں تحت روایت عائشہ رض اللہ عنہ کے مذکور ہے۔
((وَاخْتَلَفُوْا ذٰلِکَ بِالْوَلِیْ لِاَنَّ الْاَصْلَ عَدْمُ النِیَابَۃِ فِی الْعِبَادَۃِ الْبَدَنِیَّۃِ وَلِاَنَّھَا عِبَادَۃٌ لَا یَدْخُلُھَا النِیَابَۃُ فِی الْحَیٰوۃِ فَکَذَلِکَ بَعْدَ الْمَوْتِ اِلَّا مَا وَرَدَ فِیْہِ الدَّلِیْلُ فَیُقْتَصَرُ عَلَی مَا وَرَدَ وَیَبْقِی الْبَاقِیْ علی الاصل وھٰذا ھوا الراجح))
’’یعنی اس امر میں علماء نے اختلاف کیا ہے ((نیَابِۃً)) روزہ ادا کرنا ولی کے ساتھ خاص ہے، یا غیر ولی بھی ادا کر سکتا ہے، اس واسطے کہ عبادت بدنیہ میں اصل بات یہ ہے، کہ کسی کی طرف سے ادا نہ کی جاوے، و نیز یہ ایسی عبادت ہے کہ زندگی میں ((نیابۃً)) ادا نہیں ہو سکتی، پس اسی طرح موت کے بعد بھی ادا نہ ہو سکے گی، مگر جس عبارت کے بارہ میں دلیل سے نیابت ثابت ہوئی، وہ اصل سے جدا ہو جائے گی، اور باقی عبادتیں (نماز وغیرہ) اپنے اصل قائم رہے گی۔‘‘
اب رہی یہ بات کہ میت پر ان کی وجہ سے مواخذہ ہو گا، یا نہیں، سو اس کی نسبت یہ خیال کرنا چاہیے، جس عبادت کا ادا کرنا اپنے امکان قدرت میں تھا، اور باوجود اس کے ادا نہ کی گئی اُس پر ضرور مواخذہ ہو گا، اور جو قدرت و طاقت سے باہر تھی، اُس پر مواخذہ نہ ہو گا۔
((قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا))
اگر غشی و بے ہوشی کے مریض کو افاقہ ہوا، اور حواس میں درستی پیدا ہو گئی تو پھر نماز ادا نہ کی تو ضرور مواخذہ ہو گا، اور اگر افاقہ کی نوبت نہ آئی، بلکہ اسی حالت میں وفات پائی، تو پھر مواخذہ ہو گا۔ اٰیۃ کَرِیمہ: ((لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الخ)) عام و شامل ہے، بہت سے مسائل کا اس سے استخراج ہو سکتا ہے، واللہ اعلم
(فتاویٰ عمر پوری ص ۹) (عبد الجبار عمر پوری)
اص و طن عمر پور ضلع مظفر نگر ہے، بعد میں دہلی میں سکونت اختیار کر لی والد کا نام منشی بدر الدین ہے، جملہ علوم مولوی فیض الحسن سہارنپوری سے پڑھے، اور حدیث حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی (م ۱۳۲۰ھ) سے پڑھی کمال قوت حافظہ کے مالک تھے، آخری عمر میں بینائی نہ رہی تھی، مگر پھر بھی درسی کتابیں بڑی عمدگی سے پڑھایا کرتے تھے، سخن فہم اور شعر گو بھی تھے، درج ذیل کتابیں ان کے قلم سے نکلیں۔ (۱) ’’صمصام التوحید فی رد التقلید‘‘۔ (۲) ارشاد السائلین فی مسائل الثلاثین (۳) تذکیر الاخوان فی خطبۃ الجمعہ بکل لسان (۴) ارشاد الانام فی فرضۃ الفاتحہ خلف الامام (۵) تبصرۃ الانام فی فرضیۃ الجمعۃ والفاتحہ خلف الامام، مدت تک ’’ضیاء السنہ‘‘ کلکتہ کے ایڈیٹر رہے، ۵۷ برس کی عمر میں ۱۳۳۴ھ مطابق ۱۹۱۶ھ میں وفات پائی، مولانا عبد الغفار حسن عمر پوری استاذ مدینہ یونیورسٹی میں ان کے پوتے ہوتے ہیں۔ (تراجم علماء حدیث ص نمبر ۱۶۰ طبع دوم)