سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) فقہاء حنفیہ کے فتاویٰ اور روش

  • 4312
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2509

سوال

(122) فقہاء حنفیہ کے فتاویٰ اور روش
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فقہاء حنفیہ کے فتاویٰ اور روش:


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بدعت کے اس نازک پہلو پر قدرے روشنی ڈالنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرات فقہاء احناف کے فتاویٰ بھی لکھ دیئے جائیں، اور وہ یہ ہیں۔

(۱)      خواجہ محمد سعید حنفی بن مجدد الف ثانی رحمہ اللہ:

مخدوم زادہ بزرگ خواجہ محمد سعید و امت برکاتہ نماز جنازہ پیرود پدر بزرگوار خود رضی اللہ نمودند و بعد از نماز برائے دعا توقف نفرمودند کہ مقتضیٰ، سنت چنین نہیں، ودر کتب فقہ معتبرہ مرقوم است کہ بعد از نماز ایستادہ دعا کردن، مکروہ است (زیدۃ المقامات ص ۲۹۴) کہ خواجہ محمد سعید نے اپنے ولاد بزرگوار حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کی نماز جنازہ پڑھائی، اور پھر دعا کے لیے کھڑے نہ ہوئے، کیونکہ یہ دعا خلاف سنت ہے، اور کتاف فقہ معتبرہ نماز جنازہ کے بعد کھڑے ہو کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔

(نوٹ):

…         کراہت سے مراد عموماً کراہت تحریمی ہوتی ہے، دلیل الطالب صفحہ نمبر ۵۰۲

(۲)      امام طاہر بن علی حنفی رحمہ اللہ:

((لَا یَقُوْمُ بِالدُّعَائِ فِیْ قِرْأۃِ الْقُرْاٰنِ لِاَجْلِ الْمَیْتَ بَعْدِ صَلٰوۃِ الجَنَازَِ وَقَبْطَھَا))

(خلاصۃ الفتاویٰ بحوالہ فتاویٰ اسوریہ)

’’نماز جنازہ سے پہلے اور اسی طرح بعد نماز جنازہ قرآن پڑھ کر میت کے لیے دعا نہ کی جائے۔‘‘

(۳)     علامہ برجندی حنفی رحمہ اللہ:

((لَا یَقُوْمُ بِالدُّعَائِ بَعْدَ صَلٰوۃِ الجَنَازَۃِ لِاَنَّہٗ یُشْبِہٗ الزِّیَادَۃَ فِیْھَا کَذَا فِی الْمُحِیْطِ)) (فتاویٰ سعدیہ ص ۱۳۰)

’’نماز جنازہ کے بعد میت کے لیے دعا نہ کرے، کیونکہ نماز جنازہ میں زیادتی کے مشابہ ہے۔‘‘

(۴)     علامہ علاء سعدی حنفی رحمہ اللہ:

((لَا یَقُوْمُ الرَّجُلُ بَعْدَ صَلٰوۃِ الْجَنَازَۃِ لِاَنَّہٗ یُشْبِہُ الزِّیَادَۃَ فِیْ صَلٰوۃِ الْجَنَازَۃِ))

(قنیہ ص ۵۶ جلد نمبر ۱) (فتاویٰ سعدیہ ص ۱۳۰) ترجمہ گذر چکا ہے۔

(۵)     حضرت ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ:

((وَلَا یَدْعُوْا لِلْمَیِّتِ بَقدَ صَلٰوۃِ الْجَنَازَۃِ لِاَنَّہٗ یُشْبِہُ الزِّیَادَۃَ فِیْ صَلٰوۃ الْجَنَازَۃِ))

(حاشیہ مشکوٰۃ شریف ص ۱۴۷ حاشیہ نمبر ۸ بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)

(۶)      مولیٰنا مولوی عبد الحئی حنفی رحمہ اللہ:

فرماتے ہیں، بعد نماز جنازہ کے دعا کرنا مکروہ ہے، (نفع المفتی والمسائل ص ۶۰)

(۷)     مولانا مفتی سعد اللہ حنفی رحمہ اللہ:

مصنف نوادر الوصول شرح فصول اکبری میں فرماتے ہیں، خالی از کراہت نیست زیرا کہ اکثر فقہاء بوجہ زیادت بودن بر امر مسنون منع مے کنند (فتاویٰ سعیدیہ ص ۱۳۰) کہ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے، کیونکہ یہ دعا امر مسنون پر زیادتی کا حکم رکھتی ہے، اس لیے اکثر فقہاء اس دعا سے منع کرتے ہیں۔

فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا حدیث شریف سے ثابت ہے:

رہا یہ اعتراض کہ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے، تو یہ معارضہ درست نہیں ہے، کیونکہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ ذکر ایک آدھ (؎۱) روایتوں میں موجود تو ہے۔

(؎۱)      ایک آدھ روایت نہیں ِ، بلکہ متعدد روایتوں میں اس دعا کا ذکر ہے، جس کی تفصیل کے لیے امام سیوطی رحمہ اللہ کا رسالہ فض الدعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدعا کا مطالع کافی ہے، جو کہ سبل السلام شرح بلوغ المرام مطبوعہ ہندوستان کے آخر میں مطبوع ہے۔

          اور سید علامہ محمد بن عبد الرحمٰن بن سلیمان زبیدی یمانی رحمہ اللہ کا رسالہ جو کہ سوال و جواب کی شکل میں ہے، اور صحیح الصغیر طبرانی مطبوعہ ہندوستانی کے آخر میں موصول ہے، باقی اس کی تفصیل فتاویٰ نزیریہ میں بھی موجود ہے، ان کتب کے مطالعہ سے معلوم ہو جائے گا کہ اس بارہ ایک آدھ حدیث ہے یا متعدد ہیں۔ (سعیدی)

((عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی الْاَسْلَمِیْ قَالَ رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ وَرَأی رَجُلًا رَافِعًا یَدَیْہِ قَبْلَ اَنْ یَفْرُغَ مِنْ صَلٰوتِہٖ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْھَا قَالَ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لم یَکُنْ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْ صَلٰوتِہٖ (مجمع الزوائد) وقَال الْحَافِظُ الْھَیْثَمِیُّ رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ وذَکَرَ السَّیُوْطِیْ فِیْ رِسَالَۃِ فَضُّ الْوِعَائِ وَقَالَ رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ))

(تحفۃ الاحوذی) (شرح ترمذی ص ۲۲۵ جلد نمبر ۲ فتاویٰ ثنائیہ ص ۵۰۴)

ُُ’’حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو سلام سے پہلے نماز میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے دیکھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت عبد اللہ نے اس کو کہا کہ آنحضرت ﷺ صرف نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے۔‘‘

((عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ رَفَعَ یَدَیْہِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ وَھُوَ مُسْتَقْبِلُ الْقِبْلَۃِ فَقَالَ اَللّٰھُمَّ خُلِّصْ الْوَلَیْدَ بْنَ الْوَلَیْدِ وَعَیَاشَ بْنَ اَبِیْ رَبِیْعَۃَ وَسَلْمَۃَ بْنَ ھِشَامٍ وَضَعْفَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ الَّذِیْنَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَلَا یَھْتَدُوْنَ سَبِیْلًا مِنْ اَیْدی الْکُفَّارِ))

(تفسیر ابن کثیر بحوالہ تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی ج ۲ ص ۲۴۵ فتاویٰ ثنائیہ ج ۱ ص ۵۰۲)

’’کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سلام پھیر کر قبلہ رخ ہو کر یہ دعا مانگی، کہ اے اللہ ولید بن عیاش، سلمہ، اور کفار قید میں گھرے ہوئے دوسرے کمزور مسلمان قیدیوں کو رہائی عطا فرما۔‘‘

 اس روایت میں ایک راوی علی بن زید بن جزعان ضعیف ہے۔ لیکن اس کا ضعف استحباب کو مانع نہیں ہے، ملا علی قاری (حنفی) فرماتے ہیں۔

((اَلْاِسْتِحْبَابُ یَثْبُتُ بِالضَّعِیْف غَِیْرِ الْمَوْضَوْعِ)) (فتاویٰ ثنائیہ بحوالہ مرقات فی الجنائز)

کہ ضعیف روایت ہے (بشرطیکہ وہ موضوع نہ ہو) استحباب ثابت ہو جاتا ہے، خلاصلہ کام یہ ہے کہ مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں بعد نماز جنازہ چارپائی اٹھانے سے پیشتر مروجہ دعا بدعت ہے، اور فرضوں کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جائز ہے، بشرطیکہ التزام نہ کیا جائے، اور نہ ہی اس دعا کو نماز کا حصہ قرار دیا جائے، جیسے کہ آج کل رواج عام ہے۔ واللہ اعلم

(الاعتصام جلد نمبر ۴ شمارہ نمبر ۴۰) (مولانا محمد عبید اللہ حنیف فیروزپوری مسجد چینیانوالی لاہور)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 220-223

محدث فتویٰ

تبصرے