سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(120) جنازہ و غیرہ نمازوں میں زبانی نیت اور اس کا حکم

  • 4310
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1467

سوال

(120) جنازہ و غیرہ نمازوں میں زبانی نیت اور اس کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنازہ و غیرہ نمازوں میں زبانی نیت اور اس کا حکم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چار تکبیر نماز جنازہ ثنا واسطے اللہ تعالیٰ کے، درود واسطے حضرت محمد ﷺ، دعائیں واسطے حاضر میت کے منہ طرف کعبہ کی، پیچھے اس امام کے اللہ اکبر، اکثر جب کہیں نماز جنازہ میں شریک ہونے کا اتفاق ہوتا ہے، امام کے پیچھے یہ آوز گونجتی ہے، جیسے مؤذن جماعت کے لیے اقامت کہہ رہا ہو، عام لوگ بے چارے ان فقرات کو فرض نمازوں والی تکبیر سمجھے ہوئے ہیں، چنانچہ اگر کوئی امام جنازہ یہ مصنوعی الفاظ نہ کہلوائے تو کہتے ہیں، دیکھو جی بغیر تکبیر کے نماز کرا دی، حالانکہ تکبیر (یا اقامت) تو ایک ثابت شدہ متفقہ مسئلہ ہے، اور یہ کلمات کلیہ بے اصل ہیں، واضعین نے ان الفاظ کو نیت کے لیے وضع کر رکھا ہے، جب کہ نیت دل کا عمل ہے، زبان کا ہے ہی نہیں، اگرچہ نیت کی اہمیت سے انکار نہیں، بے شک انسان کو نیت کا پھل ملتا ہے۔((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنیات ولکل امریٔ مَا نَویٰ)) (صحیحین) لیکن اس کا تعلق دل سے ہے۔ زبان سے نہیں، مندرجہ حدیث کے تحت ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔

((فالنیۃ عمل القلب وھی تنفع الناوی وان لم یعمل الاعمال وادائہا لا ینفعہ دوننا))

’’نیت دل کا فعل ہے، نیت کرنے والا عمل نہ بھی کرے، تو بھی حسن نیت اسے فائدہ دے جاتی ہے، اور بغیر نیت کیا ہوا کام مفید نہیں۔‘‘

پھر یہ حدیث بھی درج فرمائی ہے۔

((مَنْ نَویٰ حَسَنَۃَّ فَلَمْ یَعْلَمْہَا کُتِبَتْ لَہٗ حَسَنَۃٌ وَمَنْ عَمِلَھَا کُتِبَتْ لَہٗ عَشْراً))

’’جو اچھی نیت کرے، اور اس کے مطابق کام نہ کرے، اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے، اور اگر کام کرے، تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘

جوہری رحمہ اللہ نے ((نَوَیْتُ)) کا ترجمہ عزمت۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: ((النیۃ القصد وھو عزیمۃ القلب)) ’’یعنی نیت عبارت ہے، قصد سے، اور قصد دل کے پختہ ارادہ کو کہتے ہیں۔‘‘ امام بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔

((النیۃ عبارۃ عن نبعاث القلب نحوماً یراہ موافقا لغرض من جلب لقع او دفع ضرحالاً او مالًا والشرع خصعہ بالارادۃ المتوجھۃ نحوالفعل لا بتغٓء رضاء اللّٰہ وامتثال حکمہ))(فتح الباری ص ۷ جلد نمبر ۱ طبع دہلی)

’’یعنی جلد یا بدید جلب منفعت یا دفن مضرت کے لیے جو کام کیا جائے، اس کی طرف دل سے متوجہ ہونے کا نما نیت ہے، اصطلاح شرع میں نیت اس ارادہ کو کہتے ہیں، جو اللہ کی رضا جوئی، اور اس کی اطاعت کے پیش نظر ایک فعل کے کرنے پر کی جائے۔‘‘

بعض علماء نے عمل قلب کے تین درجے مقرر کیے ہیں، وہ کہتے ہیں، پہلے عزم پیدا ہوتا ہے، پھر قصد کیا جاتا ہے، بعد میں نیت پیدا ہوتی ہے، ان حوالہ جات سے مقصود یہ ہے کہ نیت کا تعلق گوشت کے اس بیضوی ٹکڑے سے ہے، جو سینہ کے اندر لٹک رہا ہے، دکھائی دینے والی زبان سے نہیں، بعض متاخیرین فقہائے احناف اور شوافع سے (البتہ تلفظ بالنیۃ کو سنن میں (فرائض میں نہیں) شمار کیا ہے، مثلاً کتاب شرح وقایہ (سنن نماز کے ذکر میں ہے، والعقد مع لفظہ ص ۱۵۹) الفاظ کے ساتھ نیت کرنا اس پر مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے بڑا عمدہ حاشیہ لکھا ہے، فرماتے ہیں۔

((ھٰھُنَا ثبت ثلث صور اولہا الاکتفاء بنیۃ القلب وھو مجزی اتفاقا وھو لطریقہ المشروعۃ الماثورۃ عن رسول اللّٰہ ﷺ فلم ینقل عن احدھم التکلم بنویت اوا نوی صلوٰۃ کذا فی وقت کذا ونحو ذٰلک کما حققہ ابن الھمام رحمہ اللہ فی فتح القدیرو ابن القیم فی زاد المعاد وقد فصلت ذالک فی السعایۃ وفی رسالتی اٰکام النفاش فی اداء الاذکار بلسان الفارش۔ وثالثھا الجمع بینھما وھو سنۃ علی مَا فی تحفۃ الملوک ولیس بصحیح و مستحب علی مَا فی المنیۃ ای بمعنی ما فعلہ العلماء واستحبوہ لا بمعنی ما فعلہ رسول اللّٰہ ﷺ اورغب فانہ لم یثبت ذالک وعللوا استحبابہ وحسنہ بان فیہ موافقۃ بین القلب واللسان للعزیمۃ))

یعنی اس مسئلہ میں تین کل صورتیں ہیں،

(۱)      دل کی نیت پر اکتفاء کرنا، یہ بالاتفاق کافی ہے، نبی ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہ سے یہی ثاببت اور مروی ہے، اور میں نے فلاں نماز کی فلاں وقت میں نیت کی یا نیت کرتا ہوں وغیرہ، ایسا کہنا کسی ایک امام سے بھی ثابت نہیں، جیسا کہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے فتح القدیر اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس کی تحقیق کی ہے، اور میں نے بھی سعایہ اور اپنے رسالہ آکام المننسوس میں اس کو واضح کیا۔

(۲)      دلی قصد کے بغیر زبان سے تلفظ کرنا یہ بالاتفاق ناکافی ہے۔

(۳)     زبان اور دل دونوں کے ساتھ نیت کرنا تحفۃ الملوک کی عبارت کے مطابق یہ سنت ہے مگر یہ صحیح نہیں، اور منیہ میں اسے مستحب کہا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء نے اسے مستحب کہا ہے،نہ کہ نبی ﷺ نے ایسا کیا، یا ترغیب دلائی ہو، آنحضرت ﷺ سے یہ ثابت نہیں، ان علماء کے مستحب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں دل اور زبان کی موافقت اور عزیمت پائی جاتی ہے، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں۔

((کان ﷺ اذا قام الی الصلوٰۃ قال اللّٰہ اکبر ولم یقل شیئا قبلھا ولا یلفظ بالنیۃ ولا قال اصلی اللّٰہ صَلٰوۃ کذا مستقبل القبلۃ اربع رکعات اماماً او مأمومًا ولا قال اداء ولا قضاء ولا فرض الوقت وھٰذا عشرۃ بدع لم ینقل عندہ احد قط باسناد صحیح وَلَا ضعیف ولا مسند ولا مرسل لفظ واحدۃ منھا النیۃ بل وَلَا عن احد من اصحابہ ولا استحسنہ اھد من التابعین وَلا الائمۃ الاربعۃ))      

’’یعنی نبی ﷺ اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دیتے تھے، اس سے پہلے کچھ نہ کہتے، کبھی نیت کا لفظ نہ بولتے، اور نہ ہی کبھی کبھی یوں کہا میں نماز پڑھتا ہوں اللہ کے لیے، فلاں نماز منہ طرف کعبہ کے چار رکعت امام یا مقتدی ادا یا قضا ای فرض وقت یہ دسوں کلمے بدعت ہیں، حضرت سے ایک کلمہ بھی ثابت نہیں۔تابعین رحمہ اللہ اور ائمہ اربعہ رحمہ اللہ نے بھی اسے مستحسن نہیں قرار دیا۔‘‘(زاد المعارج جلد نمبر۱ ص ۵۱)

حنفیہ کے نزدیک بھی زبانی نیت کی جو حیثیت ہے، وہ اس قول سے واضح ہو جاتی ہے۔

((ولو نوٰی الظھر وتلفظ بالعصر جزأہ لان المعتبر ھو التعین بالقلب کذا فی القنیۃ))

(حاشیہ شرح وقایہ ص ۱۵۹)

’’یعنی اگر ظہر کی نیت کرے، اور زبان سے عصر کا لفظ بولے نماز ہو جائے گی، کیونکہ معتبر دل کی تعیین ہے۔‘‘

اسی صفحہ پر شرح وقایہ کی عبارت بھی ملاحظہ فرمائیے۔

((ویکفی للنفل والتراویح وسائر السنن نیۃ مطلق الصلوٰۃ و للفرض شرط تعینہ ولا نیۃ عدد رکعاتہ وللمقتدی نیۃ صلوتہ اوقتدائِہٖ))

’’یعنی نفل تراویح اور سب سنتوں کے لیے مطلق نماز کی نیت کر لینا کافی ہے، (نماز کی قسم کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں) فرض نماز کو البتہ متعین کر لینا چاہیے، تعداد رکعت کی نیت کوئی نہیں، مقتدی کے لیے اتنا ہی کافی ہے، وہ یہ نیت کرے، میں امام کی اقتداء میں نماز پڑھتا ہوں۔‘‘

حاشیہ میں علامہ عبد الحئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

((لا تشرط نیۃ الاستقبال الی الکعبۃ علی الاصح))

’’زیادہ صحیح بات یہی ہے، استقبال کعبہ کی نیت شرط نہیں۔‘‘

نیز فرماتے ہیں۔

((ولا تشترط نیۃ تعین الامام ولو نوٰی ولو نوی الاقتداء بالامام یظن انہ (ید خاف عمر و صح کذا فی البحر حوالہ ایضاً))

’’یعنیج تعین امام کی نیت شرط نہیں، اگروہ زید کو امام سمجھ کر اقتداء کی نیت کرے،حالانکہ امام عمرو ہو تو نماز صحیح ہو گی، یعنی زبانی نیت کا مسئلہ کتاب و سنت میں تو خبر ہے ہی نہیں۔‘‘

فقہائے حنفیہ کے نزدیک بھی راجح قول یہی ہے کہ اتنی رکعت ناز منہ طرف کعبہ کے پیچھے امام فلاں کے کہنا، مہمل ہے، پھر سوال یہ ہے۔ ((انما الاعمال بالنیات)) کا تعلق نماز ہی سے نہیں، ہر عمل سے ہے، بالخصوص نماز جنازہ میںجو بآواز بلند نیت بولی جاتی ہے، اس تخصیص کی کیا دلیل ہے۔ چنانچہ جنازہ میں ایک شخص نیت پڑھتا ہے، باقی سب سنتے ہیں، دوسری باجماعت اور فرض نمازوں میں یہ باجماعت نہیں ہوتی، بلکہ ہو کوئی اپنی نیت پر انحصار کرتا ہے،یہ کیا فلسفہ ہے، بات یہ ہے نیت کا تعلق دل سے ہے، زبان سے نہیں، اور جس نیت کا تعلق زبان سے ہے، اس کا تعلق زبان سے ممکن ہو، مگر قرآن و سنت سے ہر گز نہیں۔ہذا ما عندی واللہ اعلم،

(الاعتصام جلد نمبر ۱۶ شمارہ نمبر ۵۰)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 213-218

محدث فتویٰ

تبصرے