سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنا

  • 430
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1021

سوال

فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنا

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، کیا عید الاضحیٰ کے موقعہ پر خاندان کے فوت شدہ بزرگوں کی طرف سے ان کی اولاد قربانی کر سکتی ہے؟ جب کہ گھر کی طرف سے ایک قربانی بھی ساتھ کی جا رہی ہو؟ مختلف کتب میں مختلف جواب ملا ہے۔ ازراہ کرم اگر کچھ تفصیل سے مسئلہ کو اور

جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس مسئلہ میں اہل الحدیث اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض اہل علم مثلا مولانا عبد المنان نورپوری اور حافظ عبد الستار حماد حفظہما اللہ نے اپنے فتاوی میں اس کو جائز قرار نہیں دیا ہے اور اس کی بنیاد اس کا بنایا ہے کہ یہ عمل سنت سے ثابت نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی میت کی طرف سے قربانی دی ہو یعنی اس کے ایصال ثواب کے لیے قربانی دی ہو۔ اور سنن ترمذی میں جو یہ روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کی وفات کے بعد بھی قربانی دیا کرتے تھے، تو یہ روایت ضعیف ہے۔ اور جہاں تک اس روایت کا معاملہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی طرف سے قربانی دی تو اس کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ قربانی نہیں تھی بلکہ امت کے حق میں دعا تھی جبکہ قربانی صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہی کی تھی یا اگر یہ قربانی بھی تھی تو یہ حاضر امت کی طرف سے تھی۔ یہ اہل علم اس کے قائل ہیں کہ حاضر یا زندہ کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی۔
اہل علم کی ایک دوسری جماعت میت کی طرف سے قربانی کے جواز کی قائل ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا شیخ بن باز رحمہ اللہ وغیرہما کا موقف ہے۔ ان کے موقف کی بنیاد قیاس و حکمت دین ہے۔ ان اہل علم کا کہنا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور قربانی بھی صدقہ ہی کی ایک قسم ہے۔ پس جب میت کی طرف سے عام صدقہ جاریہ یا نفلی صدقہ وغیرہ کیا جا سکتا ہے تو اس کی طرف سے قربانی بھی کی جا سکتی ہے۔
اس کی ایک دلیل یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ بالاتفاق میت کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے اور حج تمتع وغیرہ میں قربانی بھی ہوتی ہے لہذا ثابت ہوتا ہے کہ میت کو قربانی کا ثواب پہنچتا ہے۔ ریہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو صدقہ آپ زندہ کے حق میں کر سکتے ہیں تو وہ صدقہ تو میت کے لیے بالاولی جائز ہونا چاہیے کیونکہ وہ اس کی زیادہ محتاج ہے۔ پس قربانی اگر زندہ کے لیے جائز ہے تو میت کے لیے بالاولی جائز ہونی چاہیے۔
مجھے ذاتی طور تو یہ دلیل کچھ زیادہ اپیل نہیں کرتی ہے کہ یہ عمل سنت میں نہیں ہے۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ ظاہر سنت میں نہیں ہے تو شریعت کا ایک بڑا حصہ ظاہر سنت میں موجود نہیں ہے۔ پس سنت میں موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل سنت سے ظاہرا، یا قیاسا یا مصلحتا وغیرہ ثابت ہو رہا ہو۔ مثلا قیاس یا مصلحت وغیرہ کے پیش نظر ایک حکم سنت سے ماخوذ کیا جا رہا ہے تو وہ بھی سنت ہی میں موجود ہوتا ہے اگرچہ بعض اہل علم اس کو قواعد عامہ کے ذریعے اخذ کر لیتے ہیں اور بعض ظاہر نصوص پر زیادہ توجہ کی وجہ سے اس دائرہ سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔ یہ دونوں مزاج صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں موجود تھے اور وہاں سے ہی منتقل ہوئے ہیں جیسا کہ غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ٍ صحابہ کو حکم دیا:
لا یصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ
تو میں کوئی ایک بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ کی بستیوں کے قریب جا کر۔
اب بنو قریظہ کی بستیاں مدینہ سے کچھ فاصلے پر عام شہر سے باہر تھیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم متفرق چھوٹی بڑی ٹولیوں کی صورت میں ان بستیوں کا گھیراو کرنے کے لیے ظہر کے بعد وقتا فوقتا نکلے۔ بعض صحابہ کو عصر کی نماز نے رستے میں پا لیا تو ان میں اختلاف ہو گیا۔ بعض نے عصر کی نماز رستے ہی میں پڑھ لی اور بعض نے کہا کہ ہم اس کو بنو قریظہ کی بستیوں میں جا کر ادا کریں گے، چاہے مغرب کے بعد پہنچیں اور ایسا ہی ہوا کہ بعض نے مغرب کے بعد بنو قریظہ کی بستیوں میں پہنچ کر اس نماز عصر کو ادا کیا۔
اب جن صحابہ نے ظاہر الفاظ کو مد نظر رکھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ تھے، ان الفاظ کی حکمت کیا تھی، ہمیں نہیں معلوم، ہمیں تو ظاہر الفاظ کی پیروی کرنی ہے اور وہ یہ ہیں کہ عصر کی نماز بنو قریظہ کی بستیوں میں جا کر ادا کرو۔ دوسری جماعت نے یہ کہا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا تھا لیکن آپ کا مقصود یہ تھا کہ جلدی نکلو اور عصر سے پہلے وہاں پہنچ جاو تا کہ عصر کی نماز وہاں جا کر ادا کرو، نہ کہ آپ کا مقصود یہ تھا کہ اگر تاخیر کے سبب رستے میں عصر ہو جائے تو پھر بھی وہاں ہی جا کر عصر ادا کرو، چاہے مغرب کے بعد ہی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کو برقرار رکھا۔
یہ دو مزاج اور سوچنے کے انداز ہیں جنہیں ہم ختم نہیں کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر میں اس وقت موجود ہوتا اور وہاں آدھی رات کے بعد پہنچتا تو عصر کی نماز بھی آدھی رات کے بعد ہی ادا کرتا۔ ان مزاجوں کو ہم ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کا جو مزاج ہے، آپ اس مزاج کے حامل اہل علم کو تلاش کریں اور ان سے استفادہ کریں تو آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ میں ذاتی طور دوسری جماعت کے مزاج کے حامل افراد میں سے ہوں اور اس مزاج کے حامل افراد میں میں سب سے زیادہ اہل اور قابل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو پایا ہے۔ یہ مزاج یا سوچنے کے انداز کی مناسبت بھی کیا چیز ہے کہ پانچ یا چھ دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے کوئی مسئلہ درپیش آیا اور میں نے کہا کہ شیخ الاسلام کی رائے اس مسئلہ میں یہ ہو گی، اور بعد میں اس کا مطالعہ کیا تو وہ وہی رائے تھی۔ اسے مزاج کی مناسبت یا سوچنے کے انداز کی مشابہت کہتے ہیں۔ پس اس مسئلہ میں بھی دراصل مزاجوں اور سوچنے کے اندازوں کا فرق ہے۔ اس کے علاوہ بھی اہل علم میں کچھ اور علمی مزاج اور مناسبتیں پائی جاتی ہیں، کسی مناسب وقت میں ان کا بھی تذکرہ کروں گا۔ اہل الحدیث میں، مزاجوں کی مناسبت سے جو یہ فتاوی کا فرق آ جاتا ہے تو ذاتی طور ان میں حساسیت محسوس نہیں کرتا ہوں۔ بس اپنے ہم مزاج اہل علم اور دوسروں کی رائے کا مطالعہ کر لیتا ہوں اور عموما ہی ہم مزاج اہل علم کی رائے پر ہی دل مطمئن ہو جاتا ہے۔
زیر بحث مسئلہ میں راقم کی ذاتی رائے یہی ہے کہ اس قسم کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

تبصرے