سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) نماز جنازہ غائبانہ کے متعلق شرعی فیصلہ کیاہے؟

  • 4292
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1213

سوال

(102) نماز جنازہ غائبانہ کے متعلق شرعی فیصلہ کیاہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ غائبانہ کے متعلق شرعی فیصلہ کیاہے، نماز جنازہ کی ترکیب اور اس میں کیا کیا پڑھنا چاہیے، نماز جنازہ بہ آواز (جہری) بہتر ہے، یا سری اور مخفی پڑھنا، مدلل و بحوالہ جواب سے محظوظ فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں ہے کہ حبشہ کا بادشاہ اصحمہ اپنے دیس میں فوت ہو گیا، اس کی وفات کی خبر جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کو میدنہ طیبہ میں دی، آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھو، پھر سب کو ساتھ لے کر میدان عید گاہ تشریف لے گئے، اور چار تکبیروں سے جنازہ غائبانہ پڑھا، یہ ظاہر ہے کہ اصحمہ حبش میں فوت ہوا، اُس کی میت وہی تھی، اور حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورجہ میں نماز جنازہ پڑھی، حبش اور مدینہ میں سینکڑوں میل کا فاصلہ ہے، اس حدیث سے میت کے لیے نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا سنت ثابت ہوئی، آ نحضرت ﷺ جس کام کو ایک دفعہ کریں، وہ امت کے واسطے قیامت تک سنت ہو جاتی ہے، ہاں اگر آپ صاف فرما دیں کہ یہ کام میرے لیے خاص ہے، تم نہ کرنا تو اور بات ہے، اس جگہ آپ ﷺ نے تخصیص نہیں فرمائی، فرض کرو کہ آپ ﷺ کے لیے جنازہ غائبانہ مخصوص تھا، تو صحابہ کرام نے آپ کے پیچھے کیسے پڑھی، حنفیہ چونکہ جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں ہیں، اس لیے حدیث کی بے جا تاویل کرتے ہیں، نماز جنازہ غائبانہ ادا کرنے کے اولہ نیل الاوطار وغیرہ میں بکثرت موجود ہیں و نیز احناف نے جو بے جا تاویلات کی ہیں، ان کا بھی اچھی طرح قلع قمع کردیا ہے، فی زمانہ بعض علمائے اہل حدیث و باوجودیکہ وہ امور مسنونہ میں بے حد اپنے کو متشدد کہتے ہیں، نماز جنازہ غائبانہ کے منکر ہو گئے ہیں، اور انہیں تاویلات بے جا کے درپے ہیں، جن کو احناف ان سے پہلے کر چکے ہیں، (افسوس) نماز جنازہ میں قرأۃ بالجہر صحیح حدیث سے ثابت صحیح بخاری میں مختصراً اور نسائی او رمنتقی الاخبار میں قدرے تفصیل سے ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے۔

((ان ہ صلی علی جنازۃ فقرأ بفاتحۃ الکتٰب وسورۃ وجہر فلما فرغ قال سنۃ وحق))

’’یعنی حضرت ابن عباس نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی، اس میں سورۃ فاتحہ اور سورت جہر سے پڑھی، اور کہا یہ حق اور سنت ہے۔‘‘

اس سے جنازہ کی نماز میں قرأۃ بالجہر ثابت ہوئی، ونیز اگر کوئی قرأۃ بالسر کرے، تو اس کا ثبوت بھی ہے، چنانچہ تلخیص الجیر میں ہے۔

((السنۃ علی الجنازۃ ان یکبر الامام ثم یقرأ القراٰن فی نفسہ الحدیث))

لہٰذا جہر اور سر دونوں جائز ہیں، فتاویٰ نذیریہ میں دونوں کو جائز کہا ہے، لہٰذا پہلی تکبیر کے بعد قرأۃ ہونی چاہیے۔اور دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد دعا پڑھنی چاہیے، یہ ترتیب شروع حدیث میں مذکور ہے، جو لوگ جنازہ میں جہر کو منع کرتے ہیں، اور اس پر لڑتے جھگڑتے ہیں، وہ جہالت پر ہیں۔

(الارشاد جدید کراچی جلد نمبر ۹ ش نمبر ۶) (مولانا محمد یونس قریشی دہلوی)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 180-182

محدث فتویٰ

تبصرے