سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) بلند آواز کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے کہ نہیں

  • 4264
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1168

سوال

(73) بلند آواز کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے کہ نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱):… بلند آواز کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے کہ نہیں، اور نماز جنازہ میں صرف سورہ فاتھہ اور دیگر سورہ بلند آواز سے پڑھے، یا کہ درود شریف اور دعا بھی ((اَللّٰھُمَ اغْفِرْ لحینا ومیتنا الخ)) پڑھ سکتا ہے، اگر سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو جنازہ ہو جاتا ہے کہ نہیں؟

(۲)      جنازہ بالجہر پڑھنے والے کو اگر کوئی شخص کہے کہ یہ فتنہ و فساد پھیلاتا ہے، تو وہ شخص عند اللہ مجرم ہے کہ نہیں؟

(۳)     آج کل جو میت کے مرنے کے بعد تین دن تک اپنے گھر کے سامنے کپڑے یا دریاں وغیرہ بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں، اور ہاتھ اٹھا کو فاتحہ خوانی کرتے رہتے ہیں، یعنی ہر بار جب اوپر سے آدمی آتا ہے، تو کہتا ہے کہ دعا مانگو، تو حضرت حقہ پیتے پیتے دعا مانگنی شروع کر دیتے ہیں، اور جو ہاتھ نہ اٹھائے، تو اس کو برا محسوس کرتے ہیں، کیا یہ اس طرح کی فاتحہ خوانی کرنا عند الشرع جائز ہے کہ نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)      بلند آواز سے برائے تعلیم سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، ویسے سنت یہی ہے کہ قرأۃ آہستہ پڑھی جائے، جیسا کہ نسائی میں ہے،

(۲)      بلند آواز سے سورہ فاتحہ جب تعلیم کے لیے ہو تو جائز ہے پھر اس کو فتنہ کہنا صحیح نہیں، ہاں اس کو عادت بنانا اور سنت سمجھنا صحیح نہیں،

(۳)     مرنے کے بعد جو تعزیت کے لیے دعا خوانی کا رواج ہے، اس کا کوئی ثبورت نہیں ۔

(الاعتصام جلد نمبر ۲۰ شمارہ نمبر ۱۹)

توضیح الکلام:

… مفی صاحب نے ایک طرف کو بلامرحجہ توجیح دی ہے، حالانکہ نماز جنازہ دونوں طرح سنت ہے، یعنی بلند آوا سے بھی اور آہستہ بھی اگرچہ دلائل کے لحاظ سے بلند آواز کے ساتھ جنازہ پڑھنا افضل اور قوی ہے، جیسا کہ مولانا عبد الجلیل صاحب سامرودی رحمۃ اللہ اپنے طویل فتویٰ میں تمام دلئل کو صحیح احادیث سے بیان فرمایا ہے، یہ کہنا کہ اس کو عادت نہ بنانا چاہیے یہ ڈبل غلطی ہے، ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب۔

(حررہ علی محمد سعیدی جامع سعیدیہ خانیوال)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 152

محدث فتویٰ

تبصرے