سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) تکبیرات جنازہ میں رفع الیدین

  • 4249
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1183

سوال

(58) تکبیرات جنازہ میں رفع الیدین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ میں ہر تکبیرات کہنے کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا مسنون ہے، یا نہیں اور ہر تکبیر میں رفع الیدین کرنا درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنازہ میں تکبیرات ہاتھ اٹھانا نہ اٹھانے سے بہتر ہے۔

((خرج البیہقی عن ابن عمر کان یرفع یدیه فی جمیع تکبیرات الجنازہ قال الحافظ سندہ صحیح وعلقه البخاری ووصله فی جزء رفع الیدین ورواہ الطبرانی فی الاوسط روری الشافعی عن سمع سلمة بن وردان یذکر ممن انس انه کان یرفع یدیه کلما کبر علی الجنازة وروی ایضاً الشافعی عن عروة وابن المسیب مثل ذلك قال و علی ذلك ادرکنا اھل العلم ببلدنا وحکاہ ابن المنذر عن ابن عمر و عمر بن عبد العزیز وعطاء وسالم بن عبد اللّٰہ وقیس بن ابی حازم والزھری والاوزاعی واحمد و اسحاق واختارہ ابن المنذر وقد صح عن ابی عباس انه کان یرفع یدیه فی تکبیرات الجنازة راوہ سعید بن منصور۔ تلخیص للحافظ ابن حجر ملتقتا))

’’بیہقی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ جنازہ کی سب تکبیروں میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے، حافظ ابن حجر نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے، اور امام بخاری رحمۃ اللہ اس کو اپنی تعلیقات میں لائے ہیں، اور اپنے رسالہ میں جزء رفع الیدین میں اس کو موصول بھی بیان کیا ہے، اور طبرانی نے اس کو اوسط میں روایت کیا ہے، اور شافعی نے اس شخص سے روایت کی ہے، جس نے سلمہ بن وردان سے سنا جو وہ انس سے روایت کرتا ہے کہ وہ جب جنازہ پر تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور شافعی نے عروہ اور ابن مسیب سے بھی اسی طرح روایت کی ہے، اور کہا کہ اسی پر یعنی اپنے شہر میں اہل علم کو پایا۔ ۱۲۔ اور ابن منذر نے بھی اس کو عبد اللہ بن عمر اور عمر بن عبد العزیز اور عطاء اور سالم بن عبد اللہ اور قیس بن ابی مازم اور زہری اور اوزاعی اور احمد و اسحاق سے حکایت کیا ہے، اور اس کو پسند کیا ہے، حافظ ابن حجر کی تلخیص میں ہے کہ سعید بن منصور نے روایت کی ہے کہ عبد اللہ ابن عباس سے ثابت ہے کہ وہ جنازہ کی تکبیروں میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ ۱۲۔ عبد الودود‘‘

اور درمیان تکبیرات کے ہاتھ باندھ لینے چاہیے، کیونکہ یہ بھی نماز ہے، اور نماز میں ہاتھ باندھنا سنت ہے۔

(حررہ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفی اللہ عنہما) (فتاویٰ غزنویہ ص ۹۹۔۱۰۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 121

محدث فتویٰ

تبصرے