سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) نماز جنازہ کے بعد فاتحہ پڑھنا اور تیسرے دن قل کی رسم وغیرہ

  • 4247
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1743

سوال

(56) نماز جنازہ کے بعد فاتحہ پڑھنا اور تیسرے دن قل کی رسم وغیرہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱)       نماز جنازہ سے فارغ ہو کر امام اور مقتدی سب مل کر بہیت اجتماعی دعا مانگتے ہیں اگر نماز جنازہ کے بعد دعا نہ مانگی جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ میت کا جنازہ خراب کر دیا گیا ہے۔

(۲)      اسی طرح جب میت کو غسل دے کر کفن پہنا کر مکان سے باہر نکالتے ہیں تو مکان کے دروازہ کے سامنے میت کا تابوت رکھ دیتے ہیں۔ اور تابوت کے گرد حلقہ بنا کر فاتحہ پڑھتے ہیں، اگر کوئی فاتحہ نہ پڑھے تو اسے بڑی بری نظروں سے دیکھتے ہیں۔

(۳)     میت کی موت کے دوسرے دن یا تیسرے دن بڑے اہتمام سے رسم قل ادا کی جاتی ہے۔ اخبارات کے ذریعہ ایک معین دن کا اعلان کیا جاتا ہے یا اپنے ادنیٰ ملازم کے ذریعہ برادری میں اطلاع کرا دی جاتی ہے کہ دوسرے یا تیسرے دن فلاں وقت پر رسم قل ادا کی جائے گی، اس دن قرآن کریم کے حافظ یا مولوی صاحبان کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، مولوی صاحب اور ان کے ساتھ جو شریک ہو سکیں قرآن مجید پڑھتے ہیں اور میت کو ثواب پہنچاتے ہیں اور صاحبان کو کھانا کھلایا جاتا ہے، اور کچھ پھل وغیرہ ان کے ساتھ کر دئیے جاتے ہیں اور کچھ نقد سے بھی خدمت کی جاتی ہے، کیا شرعاً ان کا ثبوت ہے؟ اگر فقہاء حنفیہ کی اس بارہ میں تصریح ذکر کر دی جائیں تو بہت مناسب ہو گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

((اَقُوْلُ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ)) جب سے مسلمان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، بدعت کا رواج کثرت سے بڑھ رہا ہے، سنت مظلوم و مقہور ہو رہی ہے، آج تعلیمات نبوی سے ناواقفیت اور کتاب و سنت سے بعد کی وجہ سے معاملہ برعکس ہے، آج سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت سمجھا جا رہا ہے، سنت پر عمل کرنا لوگوں کے طعن و تشنیع کا نشانہ بننا ہے، ایک طرف رسول اکرم ﷺ کے ساتھ محبت وعقیدت کے اظہار میں بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا جاتا ہے، مجالس میلاد منعقد کی جاتی ہیں جلوس نکالے جاتے ہیں، ولادت نبوی کی یادگار منائی جاتی ہے۔ بازار اور گلی کوچوں میں چراغاں کیا جاتا ہے اس ادعاء محبت کے ساتھ عمل کی یہ حالت ہے کہ سنت سے نفرت اور بدعت سے پیار۔ آپ کے سوالات تو صرف ایک خاص مسئلہ کے متعلق ہیں، لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں نے سارے دین کو اسی طرح بدعات سے ملوث کر کے اس کی صورت مسخ کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ہمیشہ ایسے لوگوں کی جماعت کو قائم رکھا جو سنت کی حفاظت کرتے رہے اور بدعات و رسوم سے اسلام کو پاک صاف کر کے پیش کرتے رہے۔ ((فَجَزَأھُمُ اللّٰہُ خَیْرَا الْجَزَاءِ))

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور نارضامندی کا علم انبیاء کرام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے، ان کی رہنمائی کے بغیر عقل انسانی ہر گز معلوم نہیں کر سکتی کہ کن چیزوں سے اللہ راضی ہوتا ہے، اور کن کاموں سے ناراض ہوتا ہے، ہمارے لیے رسول اکرم ﷺ کی ذارت بابرکات ہی نمونہ کاملہ ہے۔ ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ اس لیے ہمارے لیے بہت بڑی سعادت یہی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی تابعداری اور پیروی میں زندگی ختم کر دیں، ہماری محبت رسول کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے تھے کہ ہمارا یہ ایمان ہوتا کہ رسول اکرم ﷺ سے بڑھ کر امت کا کوئی خیر خواہ اور ہمدرد نہیں ہو سکتا۔ ان کی شان میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔

﴿لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمُ﴾

’’لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں، تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں، وہ تو مومنوں کے لیے بڑے مشفق اور مہربان ہیں۔‘‘

بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میت کے لیے رسم قل منفعت بخش ہو، اور وہ نہ بیان فرمائیں، نماز جنازہ کے علاوہ سب کا مل کر میت کے لیے فاتحہ درود پڑھنا موجب ثواب ہو اور وہ اس کے لیے ہدایت نہ فرمائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ بدعت ایک ایسی مصیبت ہے کہ اس کے آ جانے سے سنت کی توفیق اٹھ جاتی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے۔

((مَا اَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةٌ اِلَّا رُفِعَ مِثْلُھَا مِنَ السُّنَّةِ))

’’جو قوم دین میں بدعت ایجاد کرتی ہے تو اس قوم میں سے اس بدعت کے برابر سنت اٹھ جاتی ہے۔‘‘

یعنی سنت پر عمل کی توفیق سے وہ قوم محروم ہو جاتی ہے اسی واسطے آپ نے بدعت سے بچنے کے لیے بڑی تاکید فرمائی۔

((اِیَّاکُمْ وَمُحْدِثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ))

’’یعنی خبردار! دین میں نئی باتوں سے بچ کر رہنا بے شک دین میں ایسی بات داخل کرنا جو نئی ہے بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

 اور یہ گمراہی ایسی خطرناک ہے کہ اس کے مرتکب کو توبہ نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اور گناہ تو ایسے ہیں کہ ان سے ڈر کر انسان کبھی توبہ کر لیتا ہے، لیکن بدعتی کو توبہ نصیب نہیں ہوتی کیونکہ وہ بدعت کو دینداری سمجھ کر کرتا ہے اس لیے توبہ کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں جاتا، اسی حقیقت کے پیش نظر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جس چیز کا بہت فکر ہے، ایک تو یہ ہے کہ لوگ اپنے علم پر دوسری چیزوں کو ترجیح دیں گے، اور فرمایا:

((اَنْ یَضِلُّوْا وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔ قَالَ سُفْیَانُ ھُوَ صَاحِبُ الْبِدْعَةِ))

’’ایک اس بات کا خوف ہے کہ لوگ گمراہ ہو جائیں گے، اور ان کو شعورتک نہ ہو گا کہ وہ گمراہ ہو گئے، حضرت سفیان نے فرمایا کہ یہ لوگ صاحب بدعت ہیں۔‘‘

 اور یہ بھی حضرت حذیفہ ہی سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے۔

((وَاللّٰہِ لَتَفْشَوُنَ الْبِدْعُ حَتّٰی اِذَا تُرِكَ مِنْھَا شَئیٌ قَالُوْا تُرِکَتِ السُّنَّةُ))

’’قسم ہے اللہ کی بدعت اس قدر پھیل جائے گی، اور قبولیت حاصل کر لے گی کہ اگر کوئی شخص ان بدعات میں سے کوئی چیز چھوڑے گا، تو لوگ اسے کہیں گے، تم نے سنت چھوڑ دی۔‘‘

وہی بات جو ابھی عرض کر چکا ہوں کہ بدعات کو اس قدر فروغ اور قبول ہو گا کہ عوام اسے دین او رسنت سمجھیں گے اور اس کے ترک کو ترک سنت اور ترک دین سمجھیں گے۔ یہ صورت حال جس کو صحابہ پیش گوئی فرما گئے آج پورے جوبن پر ہے، سنت مظلوم ہے، اور سنت پرعمل کرنے والے تھوڑے اور مقہور ہیں، علوم نبویہ سے بے رغبتی ہے، اور دین سے جہالت عام ہے، یہ وقت اسلام کی غربت کا ہے، جس کے لی حضور کی پیشن گوئی ہے، بہرحال اس دور بدعت والحاد میں اگر بچائو کی صورت ہے تو وہی جو خود اس صادق ق مصدوق نے فرمائی۔

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد مؤثر وعظ ارشاد فرمایا۔ سننے والوں کی کیفیت یہ تھی کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے،ا ور دل مارے خوف کے پگھلے جا رہے تھے، اس وعظ میں آپ نے منجملہ اور نصائخ کے ایک یہ بات ارشاد فرمائی: ’’جو شخص تم میں سے زندہ رہے گا۔ وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا۔ پس تم نے میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو لینا سنت کو بڑی مضبوطی کے ساتھ پورے اہتمام کے ساتھ پکڑنا اور دین میں نئی باتوں سے بچنا کیونکہ دین میں جو نئی بات پیدا کی جائے گی، وہ بدعت ہو گی، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ (مسند امام احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

بدعت کے پرکھنے کا معیار:

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوا کہ اختلاف کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کی سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا چاہیے۔ مولانا عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں۔

سنت خلفاء راشدین حقیقت میں سنت پیغمبر ﷺ ہی ہے، اس کی یا تو یہ صورت ہوئی کہ عہد نبوی میں کسی وجہ سے اس کو شہرت حاصل نہ ہوئی یا کسی وجہ سے اس کو رواج نہ دیا گیا، (جیسا کہ نماز تراویح بجماعت مترجم اور بعد میں صحابہ کرام نے اس سنت کو رواج دیا، اور ان کے زمانہ میں اس سنت کو شہرت حاصل ہوئی، یا صحابہ کرام کے اجتہاد سے کوئی سنت رواج پذیر ہوئی (جیسا کہ جمعہ کی دوسری اذان، مترجم) اس کو بھی موافق سنت نبوی کہا جائے گا، اور اس پر بدعت کا اطلاق نہ ہو سکے گا۔

کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی جماعت وہ پاکیزہ جماعت تھی، جن کے علوم مشکوٰۃ نبوت سے ماخوذ اور اُن کے سینے فیضان صحبت نبوی سے منور تھے، ان کے سامنے وحی نازل ہوتی اور حضور اقدس سے براہ راست وہ سنتے یا آپ کو اس پر عمل کرتے دیکھتے، صحابہ کرام نے اللہ اور اس کے برگزیدہ رسول کی محبت میں اپنے گھر بار، آل واولاد، اعزہ واقارب کو چھوڑ دیا، اور آستانہ نبوت کی جاروب کشی کو سرمایہ ٔ سعادت سمجھ کر دل و جان سے نبی اکرم ﷺ کے خادم اور جان نثار بن گئے تھے۔ پس سال با سال کی تربیت نے ان کو مزاج نبوی کے شناسا بلکہ راز دار بنا دیا تھا، اور اس کمال اتباع کی برکت کا ظہور تھا کہ جب آپ نے فرقہ ناجیہ کہ تشریح کی تو فرمایا:

((مَا اَنَا عَلَیْهِ وَاَصْحَابِیْ))

’’یعنی فرقہ ناجیہ وہ ہو گا جو اس طریقہ پر گامزن ہو گا، جو میرا اور میرے اصحاب کا ہے۔‘‘

اور کیوں نہ ہو،یہی تو وہ اصحاب کرام ہیں جن کے لیے قرآن کریم میں فرمایا:

﴿وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَةِ التَّقْوٰٰی وَکَانُوْا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَھَا﴾ (الفتح ع۳)

’’اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے دلوں کو تقویٰ پر جمائے رکھا اور وہ اس کے بہت ہی مستحق تھے اور اس کے اہل تھے۔‘‘

اہل سنت والجماعت:

اور یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کے لیے اسی حدیث میں جس میں آپ نے بہتر فرقوں کا ذکر کیا اور فرمایا، سب جہنمی ہیں، مگرا یک فرقہ، مسند امام احمد اور ابوداوئود کی روایت میں بجائے ((مَا اَنَا عَلَیْهِ وَاَصْحَابِیْ)) کے ((وَھِیَ الْجَمَاعَةُ)) کا لفظ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ’’جماعت‘‘ سے مراد اصحاب کرام ہی ہیں، اسی سے فرقہ حقہ کے لیے ’’اہل سنت والجماعت‘‘ کا نام تجویز ہوا اورا نہی کے لیے سواد اعظم کا لفظ ایک حدیث میں استعمال کیا گیا، اور یہی مفہوم ہے، صاحب تلویح کی عبارت کا۔

((وَالسَّوَادُ الْاَعْطَمُ عَامَةُ الْمُسْلِمِیْنَ مِمَّنْ ھُوَ اُمَّه مُطْلَقَةٌ وَالْمُرَادُ بِالْاُمَّةِ الْمُطْلَقَةِ اَھْلُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ وَھُمْ الَّذِیْنَ طَرِیْقُھُمْ طَرِیْقَةُ الرَّسُوْلِ عَلَیْهِ السَّلَامَ وَاَصْحَابِه دُوْنَ اَھْلِ الْبِدْعِ)) (توضیح تلویح ص ۴۶ جلد دوم۔ طبع مصر)

’’یعنی سواد اعظم سے مراد اہل سنت و الجماعت ہیں، اور اہل سنت والجماعت وہ ہیں جن کا طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا طریقہ تھا، نہ کہ اہل بدعت کا طریقہ، جو نہ نبی ﷺ سے ثابت ہے نہ اصحاب کرام سے۔‘‘

 اور یہی ارشاد فرمایا حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے:

((اَلْفِرْقَةُ النَّاجِیَّةُ ھُمُ الْاَخِذُوْنَ فِی الْعَقِیْدَةِ وَالْعَمْلِ جَمِیْعَا بِمَا ظَھَرَ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَجَرٰی عَلَیْهِ جُمْھُوْرُ الصَّحَابِةِ وَالتَّابِعِیْنَ وَغَیْرُ النَّاجِیَةِ کُلُّ فِرْقَةٍ اخْتَلَفَتْ عَقِیْدَةُ خِلَافِ عَقِیْدةِ السَّلْفِ الصَّالِحِ اَوْ عَمَلًا دُوْنَ اَعْمَالِھِمْ)) (حجۃ اللہ البالغہ ص ۱۳۶ جلد ۱ طبع مصر)

’’یعنی فرقہ ناجیہ کے لوگ وہ ہیں جو عقیدہ اور عمل دونوں میں ظاہر کتاب و سنت اور جمہور صحابہ اور تابعین کے طریقہ کے پابند ہوں اور غیر ناجی فرقہ وہ ہے جو سلف صالح سے عقیدہ یا عمل میں مخالف ہو۔‘‘

مولانا عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اشعۃ اللمات شرح مشکوٰۃ میں حدیث مذکورہ بالا ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّة الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ)) کی تشریح میں سوال وجواب کے طرز پر فرماتے ہیں۔

یہ کیسے معلوم ہوا کہ فرقہ ناجیہ، فرقہ اہل سنت والجماعت ہیں؟ جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ دین اسلام نقل سے ہم تک پہنچا ہے نہ کہ عقل سے اور تواتر سے نیز احادیث و آثار کے تفحص سے یہ بات یقین کے ساتھ ثابت ہے کہ سلف صالح صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ان کے بعد ائمہ دین سب کے سب اسی اعتقاد اور اسی طریقہ پر کاربند تھے جو اہل سنت والجماعت کا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں۔

ومحدثین اصحاب کتب ستہ وغیرہا از کتب مشہورۂ معتمدہ کہ بنا و مدار احکام اسلام بر آنہا افتادہ و ائمہ فقہائے ارباب مذاہب اربعہ وغیرہم اذا نہا کہ درطبقہ ٔایشان بودہ اند ہمہ یرین مذہب بودہ ان۔ (ص ۷۶ طبع ہند) یعنی محدثین جو صحاح ستہ اور دوسری مشہور او رمستند کتب حدیث کے مصنف ہیں، اور جن کی کتابوں پر احکام اسلام کا دارومدار ہے، نیز ائمہ فقہاء مذاہب اربعہ اور ان ائمہ مذاہب اربعہ کے علاوہ دوسرے ائمہ دین جو ان کے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں، یہ سب کے سب اہل سنت والجماعت ہیں۔

پس خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ جو عقیدہ یا عمل دین جو نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام سے ثابت ہے وہ حق ے، اور جو عقیدہ یا عمل دین حدیث سے یا آثار صحابہ سے ثابت نہیں، وہ بدعت ہے اور یہ تامم اہل السنت والجماعت یعنی اہل حدیث اور فقہاء کا متفقہ مسلک ہے۔

یہ محدثین اور فقہاء کا مسلک جو بیان کیا یگا ہے، اس کی اساس تو وہی حدیث نبوی ہے جو صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے

((مِنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَھُوَ رَدٌّ))

’’یعنی جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسا عمل یا عقیدہ ایجاد کیا جو اس میں نہیں اور بعض روایات کے مطابق جس کے لیے ہماری اجازت نہیں ((لَیْسَ عَلَیْهِ اَمْرُنَا)) وہ عمل مردود ہے۔‘‘

اس حدیث کے حقائق و معارف کو جس طرح صحابہ کرام نے سمجھا، حقیقت ہے کہ ہم متاخرین اس کو نہ سمجھ سکتے اگر وہ ہماری اس بارے میں رہنمائی نہ کرتے۔ ((فَجَزَاھُمَ اللّٰہُ عَنَّ وَعَنْ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ الْجَزَاءِ))

یہاں دو چار ایسے مسائل کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس سے احداث فی الدین یعنی دین میں بدعت کے ایجاد کو صحابہ کرام نے کس طرح سمجھا، آج ہم اگر صحابہ کرام کی ان تشریحات کو اپنے لیے دستور العمل بنا لیں تو ہم بدعات سے بچ سکتے ہیں، اور خالص سنت پر عمل کر کے رضاء الٰہی حاصل کر سکتے ہیں۔

حلقہ بنا کر ذکر الٰہی کرنا:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کی ایک روایت مختصراً ذکر کرتا ہوں غور فرمائیے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ذکر کیا کہ آج میں نے مسجد میں ایک نیا عمل دیکھا ہے، مگر یہ ظاہر اچھا ہی معلوم ہوتا ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا، کون سا نیا عمل دیکھا ہے؟ حضرت ابو موسٰی اشعری رضٰ اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے مسجد میں ان لوگوں کو جو نماز کے انتظار میں تھے دیکھا کہ ہو حلقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اور ہر حلقہ میں ایک شخص بلند آواز سے کہتا ہے کہ ایک سو دفعہ((اَللّٰہ اکْبَر)) پڑھو، نمازی اس کے بعد ایک سو دفعہ ’’اللہ اکبر‘‘ پڑھتے ہیں، اسی طرح ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) سو مرتبہ اور ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ)) سو مرتبہ پڑھواتا ہے، اور لوگ ایک ایک سو مرتبہ پڑھتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے فرمایا، تم نے ان لوگوں سے کچھ کہا؟ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے انہیں کچھ نہیں کہا، آپ کی رائے اس بارہ میں معلوم کرنا چاہتا تھا، اس کے بعد عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے پاس خوش تشریف لے گئے، اور دریافت فرمایا کہ یہ کیا کرتے ہو ؟ حلقہ میں ذکر کرنے والوں نے کہا، حضور! یہ کنکریاں ہیں، ہم ان کے ساتھ گنتی کرتے ہیں، تسبیح و تحمید اور تہلیل کی، یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

((وَیَحْکُمْ یَا اُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا اَسْرَعَ ھَلَکَتَکُمْ ھٰولَاءِ صَحَابَةُ نَبِیَّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُوْنَ وھٰذِه ثِیَابُه لَمْ تُبْلَ وَاٰنِیَةٌ لَمْ تَکْسِرْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه اَیَّکُمْ لَعَلٰی مِلَّةٍ ھِیَ اَھْدٰی مِنْ مِلَّةٍ مُحَمَّدٍا ومفتتحی باب ضَلَالَةٍ۔ فَقَالُوْ یَا اَبَا عَبْدَ الرَّحْمٰن مَا اَرَدْنَا اِلَّا الْخَیْر۔ قال وکم مِنْ مَرِیْدٍ لِلْخِیْرِ لَنْ یُّصِیْبَه)) (دارمی ص ۳۸)

’’ہائے افسوس ہے تم پر اے امت محمدیہ، تم کس قدر جلد ہلاکت کی راہ اختیار کرنے لگ گئے ہو۔ دیکھو یہ صحابہ کرام کی کثیر جماعت ابھی موجود ہے، اور نبی ﷺ کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور آپ کے برتن ابھی ٹوٹ پھوٹ نہیں گئے، اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یاتو تم نے طریقہ محمدیہ سے بہتر طریقہ پا لیا ہے، یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو، حلقہ میں ذکر کرنے والوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ ہم نے تو نیکی کا کام سمجھ کر یہ حلقہ میں ذکر شروع کیا ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کتنے ہیں جو نیکی کے ارادہ سے عمل کرتے ہیں، لیکن وہ نیکی کو نہیں پا سکتے۔‘‘

غور فرمائیے کہ یہ لوگ صرف ((سُبْحَانَ اللّٰہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ)) اور ((اَللّٰہُ اَکْبَرُ)) کا ذکر کرتے تھے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس ہیئت کے ساتھ ذکر کرنے کو ناپسند کیا، کیونکہ اس ہیئت کے ساتھ حلقہ بنا کر آپ نے نبی ﷺ اور ؤپ کے اصحاب کرام کو ذکر کرتے نہیں دیکھا تھا، آپ کے الفاط کو پھر غور سے پڑھیے، اتنی سی بات پر آپ فرماتے ہیں کہ دو باتوں میں سے ایک بات یقینی ہے۔(۱) یا تو تم طریقہ محمدیہ سے بہتر طریقہ پر ہو … (۲) … یا تم گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔ ((سُبْحَانَ اللّٰہِ ! سُبْحَانَ اللّٰہِ!)) یہ ہے نبی ﷺ سے سچی محبت، یہ ہے عشق محمدی، اور یہ ہے، کمال اتباع سنت محمدیہ، کہ اتنی سی بات بھی برداشت نہ کر سکے کہ تسبیح و تحمید حلقہ بنا کر ایک ایسی ہیئت کے ساتھ پڑھیں جس ہیئت کے ساتھ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کو نہیں دیکھا۔

مستحب مکروہ بن جاتا ہے:

اس سے بھی زیادہ لطیف اور اہم علمی مسئلہ اتباع سنت کے سلسلہ میں حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا ہے۔

((لَا یَجْعَلُ اَحَدُکُمْ لِلشَّیْطَانِ شَیْئًا مِنْ صَلٰوتِه یَرَی اَنَّ حَقًّا عَلَیْهِ اَنْ لَا یَنْصَرِفَ الا عَنْ یَمِیْنِه)) (صحیحین)

’’اپنی نماز میں کوئی شخص شیطان کا حصہ مقرر نہ کرے، اس طرح کہ وہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صرف داہنی طرف منہ کر کے لوٹنے کو اپنے لیے ضروری قرار دے۔‘‘

یعنی امام نماز سے فارغ ہونے کے بعد مقتدیوں کی طرف جب منہ کر کے بیٹھے تو وہ عام دستور کے مطابق (داہنی طرف سے کام کرنے کو مستحب سمجھا جاتا ہے) صرف اپے داہنی طرف منہ موڑ کر بیٹھنے کی ضروری قرار نہ دے۔ وہ فرماتے ہیں، کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو اکثر اپنے بائیں طرف مڑ کر مقتدیوں کی طرف متوجہ ہوتے دیکھا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں اس روایت کے ذیل میں ابن المنیر کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔

((فِیْهِ اَنَّ الْمَنْدُوْبَاتِ قَدْ تَنْقَلِبُ مَکْرُوْھَاتِ اِذَا رَفَعَتْ عَنْ رُتْبَتِھَا لَاَنَّ التَّیَامُنَ مُسْتَحَبٌّ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ مِنْ اُمُوْرِ الْعِبَادَةِ لٰکِنَّ لَمَّ خَشِیَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ اَنْ یَعقتَقَدُوْا وَجُوْبَه اَشَارَ اِلٰی کَرَاھَتِه))

’’یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ ایک امر مستحب بعض حالتوں میں مکروہ بن جاتا ہے، جب کہ امر مستحب کو اس کے رتبۂ استحباب سے بڑھا دیا جائے، دیکھئے کہ عبادات میں دائیں ہاتھ سے شروع کرنا ایک امر مستحب ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب یہ خیال کیا کہ لوگ اس امر مستحب کو کہیں واجب قرار نہ دے دیں، آپ نے اس کی کراہت کی طرف اشارہ کر دیا۔‘‘

 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمانے سے واضح ہو گیا کہ جو شخص ایک امر مستحب پر اصرار کرے اور افضل صورت پر عمل نہ کرے، سمجھ لو کہ شیطان اس کے گمراہ کرنے کے درپے ہے، کیونکہ اس نے ایک امر مستحب کو اس کے رتبۂ استحباب سے بڑھا دیا، اسے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے شیطانی عمل قرار دے کر اس کے بدعت ہونے کی طرف اشارہ کیا، اور جو شخص صریح بدعت پر اصرار کرے، اور سنت کی راہ قبول کرنے سے گریز کرے، تو سمجھ سکتے ہو کہ شیطان نے اس پر کس قدر قبضہ جما رکھا ہے؟ ((اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْه))

ضابطۂ شرعی:

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے حدیث مذکور الصدر ((مِنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا)) کے ذیل میں عبادات میں کسی عمل کو بدعت یا سنت قرار دینے کے لیے ایک ضابطہ بیا کیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ضابطۂ شرعیہ کا ذکر کر دوں، اور اسی پر اس فتویٰ کو ختم کر دوں۔ فرماتے ہیں:

((فَمَنْ تَقَرَّبَ اَلَی اللّٰہِ بِعَمْلٍ لَمْ یَجْعَلَهُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُه قُرْبَة اِلَی اللّٰہِ فَعَمْلُه بَاطِلٌ مَرْدُوْدٌ عَلَیْهِ الرَّأْسِ فِیْ غَیْرِ حَالِ الْاِحْرَامِ وَمَا اَشْبَهَ ذٰلِكَ مِنَ الْمُحْدِثَاتِ الَّتِیْ لَمْ یَجْعَلَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُه التقرّبَ بِھَا بالکلیة))

’’یعنی جو شخص اللہ عزوجل کا قرب ایسے عمل سے حاصل کرنا چاہتا ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول نے تقرب الی اللہ کا ذریعہ نہیں بتایا تو سمجھ لو کہ اس کا عمل باطل و مردود ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص گانے بجانے کے آلات سے یا رقص و سرود سے یا حالت احرام ے سوا سر ننگا رکھنے سے قرب الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہے، یا اس جیسی اور بدعات جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تقرب کا ذریعہ قرار نہیں دیا۔‘‘

اس کے بعد دوسرا ضابطہ بیان فرماتے ہیں، اسے غور سے پڑھنا چاہیے، اس بارے میں اچھے اچھے صاحب علم بھی غلطی کر جاتے ہیں، فرماتے ہیں:

((وَلَیْسَ مَا کَانَ قُرْبَةٌ فِی عِبَادَةٍ یَکُوْنُ قُرْبَةٌ فِیْ غَیْرِھَا مُطْلَقًا))

’’یعنی یہ ضروری نہیں کہ ایک کام ایک عبادت میں تو موجب تقرب الی اللہ ہے تو وہ کام ہر عبادت میں موجب تقرب ہو۔‘‘

اس کے بعد ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ:

’’نبی ﷺ نے ایک شخص کو دھوپ میں کھڑے دیکھا تو آپ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا کہ یہ کیوں کھڑا ہے؟ کہتے ہیں کہ یہ جمعہ کا دن تھا، نبی ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اس شخص نے یہ نذر مانی تھی کہ جب تک نبی ﷺ خطبہ ارشاد فرما تے رہیں گے، وہ کھڑا رہے گا، بیٹھے گا نہیں، اور دھوپ میں کھڑا رہے گا، سایہ میں نہیں آئے گا، فرماتے ہیں، اس کی یہ نذر صرف آپ کے خطبہ کے سننے اور آپ کے احترام کی نیت سے تھی، لیکن آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ بیٹھ جائے اور سایہ میں آ جائے، فرماتے ہیں نبی ﷺ نے اس کی نذ رکو تقرب الی اللہ کا ذریعہ نہیں سمجھا، حالانکہ قیام عبادت ہے، نماز میں اذان میں، عرفات میں دعا کے وقت اور سایہ سے نکل کر دھوپ میں کھڑا ہونا موجب تقرب ہے میدان عرفات میں۔‘‘

اس کے بعد ضابطہ شرعیہ بیان فرماتے ہیں۔

((فَدَلَّ عَلٰی اَنَّه لَیْسَ کُلُّ مَا کَانَ قُرْبَةٌ فِیْ مَوْطِنٍ یَکُوْنُ قُرْبِةٌ فِیْ کُلِّ الْمَوَاطِنِ اِنَّمَا یَتَّبِعِ فِیْ ذٰلِكَ کُلِّه مَا وَرَدَتْ بِهِ الشَرِیْعَتَهُ فِیْ مَوَاضِعِھَا)) (جامع العلوم والحکم ص ۴۲)

’’یعنی اس سے معلوم ہوا کہ ایک عمل اگر ایک مقام پر موجب ثواب ہے ضروری نہیں کہ ہر جگہ وہ عمل موجب ثواب ہو، اس بارہ میں ہر مقام کے لحاظ سے تمام تر اتباع شریعت کا کیا جائے گا۔‘‘

اس استفتاء کے جواب کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک نصیحت اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے ایک خط پر ختم کرتا ہوں۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نصیحت مبارکہ:

آپ فرماتے ہیں:

((مَنْ کَانَ مُسْتَنًّا فَلْسَیْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ فَاِنَّ الْحَیَّ لَا تُوْمَنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَةُ اُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ مُحَمَّد ﷺ کَانُوْ اَفْضَلْ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ اَبَرُّھَا قُلُوْبًا وَاَعْمَقُھَا عِلْمًا وَاَقَلُّھَا تَکَلَّفًا اَخْتَارَھُمْ اللّٰہُ لِصُحْبَةِ نَبِیِّه ﷺ وَلِاِقَامِة دِیْنِہٖ فَاَعْرِفُوْا لَھُمْ فَضْلَھُمْ وَاتِّبِعُوْھُمْ عَلٰٰی اٰثِرِھِمْ وَتَمَسَّکُوْا بِمَا اَسْتَطَعْتُمْ مِنْ اَخْلَاقِھِمْ وَسِیَرِھِمْ فَاِنَّھُمْ کَانُوْا عَلَی الْھُدَی الْمُسْتَقِیْمِ)) (مشکوٰة شریف)

’’جو شخص راہ راست چلنا چاہتا ہے، اُسے چاہیے کہ اُن لوگوں کے نقش قدم پر چلے جو فوت ہو گئے ہیں،کیونکہ زندوں کے لیے خوف ہے فتنہ میں گرفتار ہو جانے کا، وہ کون لوگ ہیں۔ (جن کی راہ اختیار کی جائے) آنحضرت ﷺ کے صحابہ ہیں، یہی لوگ اس امت کے بہترین افراد ہیں، ان کے دل نہایت نیک تھے، ان کے علم بہت گہرے تھے، ان کے اندر تکلف بالکل کم تھا، اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی محبت کے لیے اور اس کے دین کو قائم کرنے کے لیے ان اصحاب کو منتخب فرمایا، پس تم لوگ بھی ان کی بزرگی کی قدر کرو، اور ان کے قدم بقدم راہ اختیار کرو، اور جہاں تک ممکن ہو، ان کے اخلاق و عادات کو کوشش کے ساتھ حاصل کرو کیونکہ یہ لوگ نہایت صحیح ہدایت پر تھے۔‘‘

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا مکتوب گرامی:

حضرت عمر بن عبد العزیز نے بعض اہل بدعت کے جواب میں یہ مکتوب گرامی لکھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے اس مکتوب کا مطالعہ اگر بدعت پسند حضرات اخلاص سے کریں گے تو امید ہے کہ انہیں رشد و ہدایت کی سعادت حاصل ہو جائے گی۔ ((بحول اللّٰہ وقوتہ))

((اَمَّا بَعْدُ اُوْصِیْكَ بِتَقْویْ اللّٰہِ وَالْاِقْتِصَادِیْ فِیْ اَمْرِہٖ وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نِبیَّه ﷺ وَتَرْك مَا اَحَدْتَ الْمُحْدِثُوْنَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِه سُنَّتُه وَکُفُوا مُؤُنَتَه فَعَلَیْكَ بِلُزوْمِ السَّنَّةِ فَاِنَّھَا لَك بِاِذْنِ اللّٰہِ عِصْمَة ثُمَّ اَعْلَمُ اَنَّه لَنْ یَبْتَدِعِ النَّاسُ بِدْعَة اِلَّا قَدْ مَضٰی قَبْلَھَا مَا ھُوَ دَلِیْلٌ اَوْ عِبْرَةٌ فِیْھَا فَاِنَّ السُّنَّة اَنَّمَا سَنَّہَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِیْ خَلَافِھَا مِنَ الْخَطَاءِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمُقِ وَالتَّعَمُقِ فَارْضِ لِنَفْسِك مَا رَضِیَ بِه الْقَوْمِ لِاَنْفُسِھِمْ فَاِنَّھُمْ عَلٰی عِلْمٍ وَقَفُوْا وَبِبَصرٍنَا فِذٍ کَفُّوْا وَلَھُمْ عَلٰی کَشْفِ الْاُمُوْرِ کَانُوْا اَقْوٰی وَبَفَضْلِ مَا کَانُوْا فِیْهِ اَوْلٰی فَاِنْ کَانَ الْھُدٰی مَا اَنْتُمْ عَلَیْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُْوْھُمْ اِلَیْهِ وَلَئِنْ قُلْتُمْ اِمَّا حَدَثَ بَعْدَھُمْ مَا اَحْدَثَه اِلَّا مَنِ اتَّبِعَ غَیْرَ سَبیْلِھِمْ وَرَغَبِ بِنَفْسِہٖ عَنْھُمْ فَاِنَّھُمْ ھُمُ السَّابِقُوْنَ فَقَدْ تکلموا فِیْهِ بِمَا یَکْفِیْ وَوَصَفُوْا مِنْهُ مَا یَشْفِیْ فَمَا دُوْنَھُمْ مِنْ مَقْصِرٍ وَمَا فَوْقَھُمْ مِنْ مَحْسَرٍ وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُوْنَھُمْ وَجموا وَطَمَحَ عَنْھُمْ اَقْوَامٌ فَغَلَوْا وَاِنَّھُمْ بَیْنَ ذٰلِكَ لَعَلٰی ھُدٰی مُسْتَقِیْمٍ))

(ابو داؤد مع عون المعبود جلد ۴ ص ۳۳۲، ص ۳۳۳)

’’حمد و صلوۃ کے بعد وصیت کرتا ہوں تم کو اللہ کے تقویٰ اور اس کے حکم میں میانہ روی کی اور اس کے نبی ﷺ کے سنت کی اتباع کی اور بدعتیوں کے نئے خیالات چھوڑنے کی جو انہوں نے سنت رسول قائم ہونے کے بعد ظاہر کیے ہیں، وہ اپنا بوجھ آپ اٹھائیں گے، اور تم سنت کے ساتھ چمٹ جائو، باذن اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اسی میں نجات ہے، یہ بھی یاد رکھو کہ آج جو بدعت لوگ نکال رہے ہیں اس سے قبل، اس کا بطلان ہو چکا ہے، اس سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے، کیونکہ جس نے یہ سنت قائم کی (یعنی نبی ﷺ) وہ اس کے خلاف کا بھی خوف علم رکھتا ہے کہ جو بات اس کے خلاف ہے، وہ سراسر خطا اور غلطی ہے، اور اس کا اختیار کرنا حماقت اور بے جا انہماک ہے، تم اپنے لیے اسی راہ کو پسند کرو جو (پہلے) لوگوں نے اپنے لیے پسند کی ہے (یعنی صحابہ کی) کیونکہ ان لوگوں نے پوری واقفیت کے ساتھ اس راہ کو اختیار کیا تھا، اور نہایت تیز نگاہ کے ساتھ دیکھ کر آگے بڑھنے سے رک گئے تھے، اور یقینا یہی لوگ دریافت کرنے کے لیے سب سے زیادہ لائق تھے، اور اچھی چیز کے حاصل کرنے کے مستحق تھے، پس اگر ان خیالات کو ہدایت سمجھا جائے جو تم لوگوں نے ایجاد کیا ہے تو لازم آئے گا کہ تم لوگ صحابہ سے بھی (علم و فضل میں ) بڑھ گئے (اور یہ قطعاً غلط ہے) کیونکہ ان لوگوں (صحابہ) نے خوب اچھی طرح ان باتوں کو حل کر لیا تھا، اور صاف طور پر واضح کر لیا تھا، جو تسکین و تشفی کے لیے کافی تھا، اب اس سے نیچے اترنے کی جگہ ہے، ن اس کے اوپر چڑھنے کی منزل ہے، جو لوگ اس تہ تک نہ پہنچ سکے، وہ نیچے رہ گئے، جن لوگوں نے اسے سے آگے بڑھنا چاہا وہ حد سے آگے بڑھ گئے، اور یقینا وہ لوگ (یعنی صحابہ کرام) ہی وہ لوگ ہیں جو افراط و تفریط سے اور آگے پیچھے ہونے سے بچے اور صراط مستقیم پر مستقل طور پر نہات مضبوطی کے ساتھ قائم رہے۔‘‘

العبد المذنب الراجی لرحمۃ ربہ الودود محمد داؤد غزنوی (الاعتصام جلد نمبر۱۱ شمارہ نمبر ۲۰ تا نمبر ۲۲)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 102-107

محدث فتویٰ

تبصرے