سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) اگر کوئی کسی مشرک کا جنازہ واسطے دفعہ فتنہ کے پڑھ لے اور..الخ

  • 4237
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1050

سوال

(46) اگر کوئی کسی مشرک کا جنازہ واسطے دفعہ فتنہ کے پڑھ لے اور..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی کسی مشرک کا جنازہ واسطے دفعہ فتنہ کے پڑھ لے اور صرف تکبیریں کہے، اور دعائیں نہ پڑھے، کیونکہ اگر جنازہ سے انکار کرتا ہے تو لوگ گائوں سے نکالتے ہیں، تو اس کے لیے کیا حکم ہے، جائز ہے یا منع ہے۔ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز جنازہ مشرکین و مجاہرین کسی صورت جائز نہیں۔

﴿قال اللّٰہُ تَعَالٰی اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ قَالَ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِه وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلَكَ لَمِنْ یشاء﴾

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا مشرک ناپاک ہیں اور فرمایا اللہ کسی کو شرک نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ اور گناہ جس کو چاہے بخش دے۔‘‘

پس جب مشرک ہر گز مغفور نہیں تو اس کے لیے جنازہ (کہ سراسر استغفار ہے) لغو ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جب منافقین کے جنازے سے منع کیا تو مشرک کا بطریق اولیٰ ممنوع ہو گا۔

﴿قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَلَا تَصَلَّ عَلٰی اَحدٍ مِنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا وَّلَا تُقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ﴾

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کی نماز نہ پڑھ اور اس کی قبر پر بھی نہ جا۔‘‘

تنبیہ:

… باقی ایسے امور میں انسان کو ڈرنا چاہیے کہ اگر مشرک کا جنازہ وغیرہ نہ پڑھوں گا تو گائوں سے یا دیار شہر سے نکالا جائوں گا۔ بلکہ دلیر ہو کر جہاں تک ہو۔ اتباع سنت کا خیال رکھنا چاہیے۔

﴿قَالَ اللّٰہ تَعَالٰی لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ کے رسول میں اسی آدمی کے لیے بہترین نمونہ ہے جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور اللہ کی یاد میں بکثرت مشغول رہتا ہو۔‘‘

فقط واللہ اعلم بالصواب والیه المرجع والماب حررہ العبد الضعیف الراجی رحمة ربه القوی ابو حریر عبدا لعزیز الملتانی عفر اللہ له والوالدیه واحسن الیہما والیه الجواب صحیح والرائے نجیح۔

(سید محمد نذیر حسین ۱۲۸۱) (سید محمد عبد السلام ۱۲۹۹) (سید محمد ابو الحسن ۱۳۰۵) (ابو سعید محمد حسین ۱۲۰۹ٍھ) (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر۴ ۱ ص ۶۴۶)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 87

محدث فتویٰ

تبصرے