سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(41) منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قطعی رات کے وقت دفن کرنے کو؟

  • 4232
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1271

سوال

(41) منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قطعی رات کے وقت دفن کرنے کو؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قطعی رات کے وقت دفن کرنے کو۔ عمرو اس مسئلہ کی تفسیر کا مثلاشی ہے۔ ازروئے شرع شریف کے جواب عنایت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رات کے وقت مردہ دفن کرنا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت کے زمانہ میں ایک شخص تھے کہ رات کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اور رات ہی کو لوگوں نے ان کو دفن بھی کردیا۔ پھر صبح ہوئی اور آنحضرت ﷺ کے پاس یہ واقعہ بیان کیا گیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ کو کیوں خبر نہ کی۔ پھر رسول اللہ ﷺ ان کی قبر کے پاس تشریف لے گئے۔ اور ان پر جنازہ کی نماز پڑھی۔ منتقی میں ہے۔

((عن ابن عباس قال مات انسان کان رسول اللّٰہ ﷺ یعودہ فمات باللیل فدفن لیلاً فلما اصبح اخبروہ فقال ما منعکم فی قالوا کان اللیل فکرھنا وکانت ظلمة ان نشق عَلَیْك فاتی قبرہ فصلی علیه رواہ البخاری وابن ماجة وقال البخاری ودفن ابو بکر لَیْلًا))

’’عبد اللہ بن عباس نے کہا ایک آدمی رات کے وقت فوت ہو گیا رسول اللہ ﷺ اس کی عیادت (بیمار پرسی) کرتے تھے، اور رات ہی کو اس کو دفن کر دیا گیا۔ جب صبح ہوئی تو آپ کو اطلاع دی گئی۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہ اطلاع دی انہوں نے کہا رات تھی اور اندھیرا تھا۔ آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا پھر آپ اس کی قبر پر آئے اور نماز پڑھی۔‘‘

جب لوگوں نے رات کو دفن کرنے کا اپنا واقعہ بیان کیا تو آنحضرت ﷺ نے اس بات سے منع نہیں فرمایا بلکہ ی فرمایا کہ مجھ کو کیوں نہ خبر کی میں بھی تمہارے دفن میں شریک ہوتا اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے۔ ہاں البتہ بعض حدیث سے ممانعت کا شبہ ہوتا ہے چنانچہ منتقی میں ہے۔

((عن جابر ان النبی ﷺ خطب یوماً فذکر رجلا من اصحابه قبض وکفن فی کفن غیر طائل وقبر لیلا فزجوا النبی ﷺ ان یقبر الرجل لیلا حتی یصلی علیه الا ان یضطر انسان الی ذلك وقال النبی ﷺ اذا کفن احدکم اخاہ فلیحسن کفنه رواہ احمد ومسلم وابو داؤد))

’’نبی ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی ذکر کیا گیا کہ وہ فوت ہو گیا ہے اور معمولی قسم کا کفن دیا یگا ہے اور اسے رات ہی میں دفن کیا گیا تو نبی ﷺ نے ڈانٹ کر منع فرمایا کہ کسی آدمی کو رات کو دفن نہ کیا جائے تاکہ اس پر جنازہ کی نماز کثرت سے پڑھی جائے۔ ہاں اگر مجبوری ہو تو علیحدہ بات ہے اور فرمایا جب کوئی تم میں سے اپنے بھلائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے۔‘‘

لیکن فی الحقیقت اس سے ممانعت نہیں ثابت ہوتی کیونکہ حدیث کا لفظ یوں ہے ۔((فزجر النبی ﷺ ان یقبر الرجل لیلا حتی یصلی علیه)) اس جملہ سے صاف ثابت ہے کہ رات کے وقت دفن کرنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے۔ بلکہ بغیر نماز کے رات کو دفن کرنا ممنوع ہے۔ لہٰذا زید کا مطلقاً یہ کہنا کہ منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قطعی رات کے وقت دفن کرنے کو صحیح نہیں ہے۔ ہاں البتہ بغیر نماز پڑھے رات کو دفن کرنا ممنوع ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے خلاصہ یہ کہ رات کو مردہ دفن کرنا جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب (سید محمد نذیر حسین)

ہو الموفق:… اگر رات کو تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ ہو سکے۔ تو رات کو دفن کرنا بلاشبہ جائز و درست ہے ((کما یدل علیه حدیث ابن عباس رضی اللہ عنه المذکور)) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رات ہی کودفن کیے گئے تھے۔ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی رات ہی کو دفن کی گئی تھیں۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں۔

((استدل المصنف (ای الامام بخاری رحمه اللہ) للجواز ای لجواز الدفن باللیل) بما ذکرہ من حدیث ابن عباس ولم ینکرا النبی ﷺ علیھم دفنھم ایاہ باللیل بل انکر علیھم عدم اعلامھم بامرہ واید ذلك بما صنع الصحابة بابی بکر وکان ذلك کالاجماع مھم علی الجواز وصح ان علیا دفن فاطمة لیلا انتہی ملخصاً))

’’امام بخاری نے ابن عباس کی حدیث سے رات کو دفن کرنے کے متعلق استدلال کیا ہے اور کہا کہ نبی ﷺ نے رات کو دفن کرنے سے منع فرمایا بلکہ ان کو اطلاع دینے کی وجہ سے زجر کی اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتا ہے کہ صحابہ نے حضرت ابو بکر کو رات کے وقت دفن کیا تو یہ ایک طرح کا اجماع ہوا اور حضرت علی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو رات کے وقت دفن کیا۔‘‘

قاضی شوکانی نیل صفحہ ۲۳۱ جلد ۳ میں لکھتے ہیں۔

((والاحادیث المذکورة فی الباب تدل علی جواز الدفن باللیل وبه قال الجمہور وکرہ الحسن البصری واستدل بحدیث ابی قتادہ وفیه ان النبی ﷺ زجران یقبر الرجل لیلا حتی یصلی علیه واجیب عنه ان الزجر منه ﷺ انما کان لکترك الصلٰوة لا للدفن باللیل اولا جل انھم کانوا یدفنون باللیل لروأة الکفن فالزجر انما ھو لما کان الدفن باللیل مظنة اساءة الکفن کما تقدم فاذا لم یقع تقصیر فی الصلٰوة علی المیت وتکفینه فلا باس بالدفن لیلا۔ واللّٰہ اعلم))

(کتبہ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفاء الہ عنہ)(فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۳۹۴) (محمد شمس الحق)

’’اس باب میں مندرجہ احادیت دلالت کرتی ہیں کہ رات کو مردے کو دفن کرنا جائز ہے جمہور کا یہی مذہب ہے حسن بصری اسے مکروہ جانتے ہیں۔ اور انہوں نے ابو قتادہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی ﷺ نے رات کو دفن کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اور اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ترک نماز کی وجہ سے ممانعت کی ہے نہ کہ رات کو دفن کرنے سے اور اس سے بھی رات کو وہ روی ساکن دے دیا کرتے تھے اور جب نماز جنازہ اور کفن میں تقصیر نہ ہو تو پھر رات کو دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘

  ((قوله بحدیث ابی قتادة کذا فی النیل والصواب بحدیث جابر کما لا یخفی علی من طالع فی النیل باب استحباب احسان الکفن وباب الدفن لیلا۔۱۲ عبد الرحمٰن مبارکپوری عفی عنہ))

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 68

محدث فتویٰ

تبصرے