سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(09) مال زکوۃ سے میت کی تجہیز و تکفین جائز نہیں؟

  • 4201
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1521

سوال

(09) مال زکوۃ سے میت کی تجہیز و تکفین جائز نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱)       کیا یہ صحیح درست اور صحیح ہے کہ مال زکوۃ سے میت کی تجہیز و تکفین جائز نہیں؟

(۲)       کیا مال زکوٰۃ کو میت کی فاتحہ اور درود وغیرہ دوسرے کاموں میں خرچ کر سکتے ہیں؟

(۳)       کیا مال زکوٰۃ اس میت کی فاتحہ وغیرہ میں خرچ کر سکتے ہیں جس مرے ہوئے کو مدت ہو گئی۔

(۴)       کیا انبیاء کرام خصوصاً آنحضرت ﷺ اور اولیا عظام کی فاتحہ وغیرہ میں مال زکوٰۃ خرچ کر سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں یہ درست اور صحیح ہے کہ مال زکوٰۃ سے کسی میت کی تجہیز و تکفین جائز نہیں ہے۔ ((ولا یجوزہ ان یکفن بھا میت ولا یقضی بھا دین المیت کذا فی الثبین)) (عالمگیری)

(۲)، (۳)، (۴)   مروجا فاتحہ یعنی آب و طعام سامنے رکھ کر اس پر ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ وغیرہ پڑھنا اور اس کا ثواب اموات کو پہنچانا بدعت ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے، ہاں بغیر اس طریقہ کے للہ فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا یا کپڑے پہنا کر اس کا ثواب میت کو پہنچانے کی نیت کرنا اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا بلاشبہ جائز ہے۔ لیکن مال زکوٰۃ کو کسی میت قدیم یا جدید یا ولی یا نبی یا آنحضرت ﷺ کو ثواب پہنچانے کے لیے خرچ کرنا قطعاً ناجائز ہے۔ قرآن کریم میں زکوٰۃ کے آٹھ مصرف بیان کیے گئے ہیں۔

﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ﴾ میت کو ثواب پہنچانا ان مصارف ہشتگانہ میں داخل نہیں ہے۔ پس مال زکوۃ سے ایصال ثواب اموات ناجائز ہے۔ (محدث دہلی جلد نمبر ۲ ش نمبر ۴)

 توضیح الکلام فتاوٰی علمائے کرام: … علامہ مجیب نے جواب نمبر ۱ میں قرآن و حدیث اور تعامل صحابہ سے کوئی دلیل پیش نہیں کی، صرف فتاویٰ عالمگیری کی مجمل عبارت پر اکتفاء کیا ہے جس کے حجت ہونے پر نظر ہے اور آیت ’’انما الصقات للفقراء‘‘ میں فقہاء نے لام تملیک کے لیے مراد لیا ہے۔ وہ بھی بے سند اور بے دلیل ہے کیوں کہ لام کے اکیس بائیس معنی آتے ہیں۔ لام استحقاق کے لیے بھی آتا ہے اور لام بمعنی نی آتا ہے اور لام بیان کا بھی آتا ہے۔ لہٰذا یہ لام مشترک المعنی ہوا، جیسا کہ اصول فقہ میں ہے۔ اور لفظ مشترک المعنی کو بلا دلیل معین کرنا جائز نہیں اور لام تملیک مراد لینا اس حدیث کے خلاف ہے۔ ((اما خالد فانکم تظلمون خالداً قد احتبس ادراعة واعتاده فی سبیل اللّٰہ)) اور آیت ﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ﴾ میں لام بیان کے لیے ہے نہ تملیک کے لیے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں۔ ((وفیه مصیر منه الٰی ان اللام فی قوله للفقراء لبیان المصرف لا للتملیك)) (فتح الباری ص ۴۳) جس محتاج کے لیے زندگی میں عشر زکوٰۃ حلال اور جائز ہے تو اس کے مرنے کے وقت کفن دفن میں عشر زکوۃ استعمال کرنے کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب (سعیدی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 44

محدث فتویٰ

تبصرے