سوال: السلام عليكم . ميرا سوال یہ ہے کہ تارك نماز كافر کے حكم میں آتا ہے تو جو شخص دو يا تين وقت کی نماز ادا كرتا ہے تو وه كس حكم میں آئيگا ؟
جواب: ١۔ اہل علم کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ نماز کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
٢۔ لیکن اہل علم میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سےخارج ہے یا نہیں۔ اس بارے امام احمدرحمہ اللہ اور حنابلہ کا معروف موقف یہی ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہے لیکن بطور حد قتل کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی کافر نہیں ہے اور تعزیرا قید کیا جائے گا۔شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والا مسلمان اگر نماز كى فرضيت كا انكار نہ كرے تو اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے۔بعض علماء اسے كافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں، اور وہ مرتد شمار ہو گا، اس سے تين يوم تك توبہ كرنے كا كہا جائيگا، اگر تو تين دنوں ميں اس نے توبہ كر لى تو بہتر وگرنہ مرتد ہونے كى بنا پر اسے قتل كر ديا جائيگا، نہ تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور نہ زندہ اور مردہ حالت ميں اس پر سلام كيا جائيگا، اور اس كى بخشش اور اس پر رحمت كى دعا بھى نہيں كى جائيگى نہ وہ خود وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى اس كے مال كا وارث بنا جائيگا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں ركھا جائيگا، چاہے بے نمازوں كى كثرت ہو يا قلت، حكم ايك ہى ہے ان كى قلت اور كثرت سے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں ہو گى۔زيادہ صحيح اور راجح قول يہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "اسے امام احمد نے مسند احمد ميں اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے۔
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" آدمى اور كفر و شرك كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں اس موضوع كى دوسرى احاديث كے ساتھ روايت كيا ہے۔
[B]اور جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ اگر وہ نماز كى فرضيت كا انكار كرے تو وہ كافر ہے اور دين اسلام سے مرتد ہے، اس كا حكم وہى ہے جو پہلے قول ميں تفصيل كے ساتھ بيان ہوا ہے۔ليكن اگر وہ اس كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا بلكہ وہ سستى اور كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرے گا، ليكن دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہو گا، اسے توبہ كرنے كے ليے تين دن كى مہلت دى جائيگى، اگر تو وہ توبہ كر لے الحمد للہ وگرنہ اسے بطور حد قبل كيا جائيگا كفر كى بنا پر نہيں۔تو اس بنا پر اسے غسل بھى ديا جائيگا، اور كفن بھى اور اس كى نماز جنازہ بھى پڑھائى جائيگى، اور اس كے ليے بخشش اور مغفرت و رحمت كى دعاء بھى كى جائيگى، اور مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن بھى كيا جائيگا، اور وہ وراث بھى بنے گا اور اس كى وراثت بھى تقسيم ہو گى، اجمالى طور پر اس پر زندگى اور موت دونوں صورتوں ميں گنہگار مسلمان كا حكم جارى كيا جائيگا۔
ماخوذ از: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلميةوالافتاء ( 6 / 49 )۔
٣۔ پس امام حمد رحمہ اللہ اور حنابلہ کے معروف موقف کے مطابق بے نمازی مسلمان ہی نہیں ہے چہ جائیکہ کہ اہل سنت والجماعت یا اہل الحدیث کہلانے کا حقدار ہو جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک بے نماز گناہ گار اور فاسق وفاجر ہے لہذا اس بنیاد پر اہل سنت والجماعت اور اہل الحدیث میں شامل ہے۔پس جمہور اہل علم کے ہاں کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی شخص اہل سنت والجماعت سے خارج نہیں ہو جاتا ہےبشرطیکہ وہ ان کے عقائد اور منہج کا اخلاص نیت سے قائل ہو۔عام طور پر اہل الحدیث علماء کا فتوی بے نمازی کے بارے کفر حقیقی کا نہیں ہے بلکہ وہ اسے کفرعملی یا کفر دون کفر قررا دیتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب