السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
((عن ابن عباس ان النبی ﷺ کان یصلی فی شھر رمضان فی غیر جماعة عشرین رکعة والوتر، راوہ البیهقی)) یہ حدیث سند کے اعتبار سے کیسی ہے۔ اور کیا قابل عمل ہو سکتی ہے۔ بینوا توجرو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں مرکزی راوی ابو شیبہ بن عثمان ہے، کسی ای محدث ماہر فن نے اس راوی کو حدیث میں ثقہ اور قابل حجت واعتبار قرار نہیں دیا ہے۔ بلکہ تمام محدثین عظام کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے، لہٰذا اصول حدیث کے اعتبار سے اس کے متعلق ہر قسم کی جرح مقبول ہو گی۔
(۱) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ((وابو شیبة ھو ابراھیم بن عثمان وکان قاضی واسط وھو ضعیف متفق علی ضعفه)) (مقدمہ شرح مسلم جلد ۱ صفحہ۷۷) ’’یعنی ابو شیبہ کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین رحمہ اللہ کا اتفاق ہے۔‘‘
(۲) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔
((قال احمد ویحیی و ابو داؤد، ضعیف وقال یحیی ایضا لیس بثقة وقال البخاری سکتوا عنه، قال الترمذی منکر الحدیث، وقال النسائی والدولابی متروك الحدیث وقال ابو حاتم ضعیف الحدیث سکتوا عنه وترکوا حدیثه وقال الجوزبانی، ساقط، وقال صالح جزرة، ضعیف لا یکتب حدیثه روی عن الحکم احادیث مناکیر، وقال ابو علی النیسا بوری لسی بالقوی، وقال الاحوص الغلابی وممن روی عنه شعبة من الضعفاء ابو شیبة، وقال معاذ العنبری کتبرت الی شعبة وھو ببغدادا سأله عن ابی شیبة القاضی اروی عنه فکتب الی لا تروعنه فانه رجل مذموم واذا قرأت کتابی فمزقه وکذبه شعبة فی قصة… قلت وقال ابن سعد، کان ضعیفاً فی الحدیث وقال الدارقطنی ضعیف وقال ابن المبارك ارم به، وقال ابن سعد، کان ضعیفاً فی الحدیث وقال الدارقطنی ضعیف وقال ابن المبارك ارم به، وقال ابو طالب عن احمد منکر الحدیث قریب من الحسن بن عمارة)) (تہذیب التہذیب ص ۱۴۴۔۱۴۵ ج اول)
امام مسلم رحمہ اللہ نے مقدمہ مسلم صفحہ ۱۷ پر امام شعبہ رحمہ اللہ کے خط کا ذکر کیا ہے، ابو شیبہ چونکہ قاضی تھا امام شعبہ کو اس سے تکلیف پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اس لیے سائل کو خط پھاڑنے کا حکم دیا۔ کہیں قاضی کے ہاتھ نہ لگ جائے مقدمہ شرح مسلم صفحہ ۱۷۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ابو شیبہ کو حسن بن عمارۃ کے قریب قرار دیا ہے، اور حسن بن عمارہ کے متعلق امام نووی لکھتے ہیں۔ ((والحسن بن عمارة متفق علی ضعفہ وترکه، مقدمه شرح مسلم)) ’’یعنی حسن بن عمارہ کے ضعف اور ترک پر سب محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘یہی حال ابو شیبہ کا ہے، امام شعبہ نے اس کو جھوٹا قرار دیا۔ اور اس سے روایت لینے کو روک دیا۔
(۳) امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ((ومن یکذبه مثل شعبة فلا یلتفت الی حدیثه)) (الفتاویٰ الکبریٰ الفقیۃ ص ۱۹۵ ج۱۔ لابن حجر الھیثمی)یعنی جس راوی کو امام شعبہ رحمہ اللہ جیسا محدث ماہر فن جھوٹا کہہ دے، اس کی حدیث کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔
(۴) ابن حجر ہیثمی، ابو شیبہ کی بیس تراویح والی حدیث تحریر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ((فھو شدید الضعف اشتد کالم الائمة فی احد رواته تجریحا وذما ومنه انه یروی الموضوعات… وان حدیثه ھذا الذی فی التراویح من جملة مناکیرہ)) (الفتاویٰ الکبری ص ۱۹۵ ج۱) ’’یعنی بیس تراویح کی حدیث سخت ضعیف ہے، اس حدیث کے ایک راوی (ابو شیبہ) پر محدثین نے سخت جرح کی ہے، ایک یہ ہے کہ وہ موضوع (من گھڑٹ) روایات بیان کرتا ہے، اور بیس تراویح کی حدیث اس کی منکر حدیثوں سے ہے۔‘‘
(۵) ((قال فی سبیل الرشاد، ابو شیبة، ضعفة احمد وابن معین والبخاری و مسلم و ابو داؤد والترمذی والنسائی وغیرھم وکذبه شعبة وقال ابن معین لیس بثقة وعد ھذا الحدیث من منکراته)) (سبل السلام ص ۱۰ ج ۲)
(۶) علامہ محمد الزرقانی لکھتے ہیں۔ ((لکن ضعفه ابن عبد البر والبیقی بروایة ابی شیبة))
شرح زرقانی صفحہ ۲۳۹ جلد ۱، نیز ملاحظہ ہو، السنن کبریٰ للبیہقی صفحہ ۴۹۶۔ جلد ۲۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ۔ امام بخاری رحمہ اللہ۔ امام مسلم رحمہ اللہ۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ۔ امام نسائی رحمہ اللہ۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ۔ امام جوزجانی رحمہ اللہ۔ امام وولابی رحمہ اللہ۔ امام صالح جزرہ رحمہ اللہ۔ ابو علی نیساپوری رحمہ اللہ۔ امام احوص غلانی رحمہ اللہ۔ امام شعبۃ رحمہ اللہ۔ امام ابن سعد رحمہ اللہ۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ۔ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ۔ امام نووی رحمہ اللہ۔ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ۔ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ۔ امام زیلعی حنفی رحمہ اللہ۔ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ۔ ابن عدی رحمہ اللہ۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ۔ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ۔ مولاناعبد الحئی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ وغیرہم نے ابو شیبہ کو ضعیف اور مجروح اور جھوٹا و غیر معتبر قرار دیا ہے۔
(۷) عون الباری برحاشیہ نیل الاوطار صفحہ ۳۷۳ جلد ۴ پر ہے، فاسنادہ ضعیف اور صفحہ ۳۷۶ جلد ۴ پر ہے، ((ولسی فی العشرین روایة مرفوعة)) ’’یعنی بیس رکعت والی حدیث ضعیف ہے اور اس بارہ میں ایک روایت بھی مرفوع نہیں ہے۔‘‘
(۸) حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔ ((واسنادہ ضعیف ویعاررضه قول عائشة ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة)) (الدرایۃ ص ۱۲۳ وکذا فی فتح الباری ص ۱۵۸ ج ۵)
’’یعنی بیس تراویح والی حدیث کی سند ضعیف ہے، اور حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث (صحیح) کے مخالف بھی ہے۔‘‘
(۹) علامہ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ ((واسنادہ ضعیف)) (تنویر الحوالک ص ۱۴۱ ج۱)
(۱۰) علامہ زرقانی لکھتے ہیں۔ ((واما عدد ما صلی ففی حدیث ضعیف عن ابن عباس انه صلی عشرین رکعة)) (شرح زرقانی ص ۲۳۴ ج۱)
(۱۱) ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں۔ ((فضعیف بابی شیبة ابراهیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة متفق علی ضعفه مع مخلافة الصحیح)) (فتح القدری شرح ہدایہ ص ۲۰۵ ج۱)
یعنی بیس تراویح والی حدیث ابو شیبہ کی وجہ سے ضعیف ہے، اور اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے، اور صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے۔
(۱۲) علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں۔ ((وھو معلول بابی شیبة ابراهیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة وھو متفق علی ضعفه ولینه ابن عدی فی الکامل ثم انه مخالف للحدیث الصحیح)) (نصب الرایہ ص ۱۵۳ ج۲)
(۱۳) علامہ عنی حنفی لکھتے ہیں۔ ((کذبه شعبة وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرھم واردله ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل من مناکیرہ عمدة القاری شرح صحیح بخاری ص ۳۵۹ ج۲))
(۱۴) ملا علی قاری حنفی نے بیس رکعت والی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ مرقاۃ صفحہ ۱۷۵۔ جلد۲
(۱۵) مولانا عبد الحئی حنفی لکھتے ہیں۔ ((وقال جماعة من العلماء منھم الزیلعی وابن الھمام والسیوطنی والزرقانی ان ھذ الحدیث مع ضعفہ معارض بحدیث عائشة الصحیح فی عدم الزیادة علی احدی عشرة رکعة فیقبل الصحیح ویطرح غیرہ)) (التعلیق الممجد ص ۴۱۱)
یعنی علماء کی جماعت امام زیلعی حنفی، ابن ہمام حنفی، امام سیوطی، زرقانی وغیرہم نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث (جس میں گیارہ رکعت کا ذکر ہے) کے مخالف ہے، پس صحیح کو قبول کیا جائے گا۔ اور اس کے غیر کو پھینک دیا جائے گا۔
(۱۶) مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں۔ ((واما عشرون رکعۃ فھو عنہ ﷺ بسند ضعیف وعلی ضعفہ اتفاق)) (العرف الشذی ص ۳۰۹)
(۱۷) ابو الطیب محمد بن عبد القادر سندھی حنفی لکھتے ہیں۔ ((واسنادہ ضعیف وقد عارضه حدیث عائشة ھذا وھو فی الصحیحین فلا تقوم به الحجة)) (شرح ترمذی صفحہ ۴۲۳، جلد ۱) ’’یعنی اس کی سند ضعیف ہے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو بخاری و مسلم میں ہے، کے مخالف ہے، لہٰذا اس ضعیف سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔‘‘
(۱۸) مولانا محمد زکریا حنفی لکھتے ہیں۔ ((لا شك فی ان تحدید التراویح فی عشرین رکعة لم یثبت مرفوعا من النبی ﷺ بطریق صحیح علی اصول المحدثین وما ورد من روایة ابن عباس فمتکلم فیھا علی اصولھم اوجزا المالك ص ۳۹۷ ج۱))
’’یعنی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ رسول الہ ﷺ سے بیس رکعت کی تحدید و تعیین محدثین کے اصول پر صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اور جو روایت ابن عباس کی بیس رکعت کے متعلق ہے، وہ محدثین کے اصول پر ضعیف ہے۔ (کیونکہ سند میں ابو شیبہ راوی نہایت ضعیف ہے)‘‘
(۱۹) شیخ عبد الھق دہلوی حنفی لکھتے ہیں۔ ((لکن المحدثین قالوا ان ھذا الحدیث)) (حدیث ابن عباس)ضعیف۔ ما ثبت بالسنۃ صفحہ ۱۲۲ نیز ملاحظہ ہو۔ ((فتح سرالمنان فی تائید مذہب النعمان)) (مسک الختام ص ۲۸۹ ج۱)
(۲۰) علامہ محمد طاہر حنفی لکھتے ہیں۔ ((وما روی عن ابن عباس کان یصلی عشرین فاسنادہ ضعیف وقد عارضه حدیث عائشة رضی اللہ عنه وھی اعلم بحال وھو فی الصحیحین)) (مجمع البحار ص ۷۷ ج۲)
(۲۱) مولانا احمد علی سہارنپوری لکھتے ہیں۔ ((فضعیف مع مخالفة للصحیح)) (حاشیہ بخاری ص۱۵۴ ج۱)
(۲۲) شیخ محمد تھانوی لکھتے ہیں۔ ((اذلا شك فی صحة حدیث عائشة وضعف حدیث ابن عباس رضی اللہ عنه)) (حاشیہ نسائی مجتبائی ص ۲۴۸ ج۱)
(۲۳) مولوی عزیز الرحمٰن مفتی دیو بند اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں۔ ا س میں شک نہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند صفحہ ۲۴۱ جلد اول و دوم
ّ(۲۴) امام اوزاعی۔ ۲۵۔ علامہ زرکشی۔ ۲۶۔ علامہ امیر یمانی۔ (سبل السلام صفحہ ۱۰۔ جلد ۲)۔ ۲۷۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (نیل الاوطار صفحہ ۵۸ جلد۳) نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
ان تصریحات سے اظہر من الشمس ہو گیا کہ بیس تراویح کی حدیث نہایت کمزور و ضعیف ہے، اور کسی ایک نے بھی اس کو صحیح وقابل حجت نہیں کہا بلکہ علمائے حنفیہ نے بھی بالاتفاق اس کے ضعیف ہونے کاواضح اقرار و اعتراف کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب