السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مروجہ شبینہ شرعی لحاظ سے درست ہے یا نہیں۔ اور اگر مروجہ شبینہ کے علاوہ ایک رات میں قرآن مجید ختم کر لیا جائے۔ تو ٹھیک ہے، اور شرعی لحاظ سے کتنے دنوں میں قرآن مجید ختم کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین دن میں قرآن مجید ختم کرنا چاہیے۔ (مشکوٰۃ)
لیکن بہت سے آثار میں سلف رحمہ اللہ سے تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنے کا ذکر آیا ہے، بنا بریں حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (جو آٹھویں صدی ہجری کے ایک فقیہ محدث تھے) کی تحقیق یہ ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث عام حالات کے بارے میں ہے، اوقات فاضلہ (مثلاً رمضان شریف) میں تین دن سے کم مدت میں قرآن مجید ختم کیا جا سکتا ہے۔ طبیعت کا نشاط اور شوق جس قدر اجازت دے۔ قرآن مجید کی تلاوت کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا آداب تلاوت و قیام کو حتی الامکان ملحوظ رکھتے ہوئے۔ ایک رات میں قرآن مجید ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ تین رات میں ہی ختم کیا جائے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں تو عام طور پر ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم۔ (الاعتصام لاہور جلد ۲۶ شمارہ ۱۰)
ایک را ت میں قرآن مجید ختم کرنا۔ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے، ﴿وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا﴾ ’’آہستہ آہستہ یعنی واضح پڑھ‘‘قرآن آہستہ پڑھنا۔ حدیث عبد اللہ بن عمر جس کی طرح مجیب صاحب نے اشارہ کیا ہے، آثار سلف جن کی طرف مجیب نے اشارہ کیا۔ وہ آیت اور حدیث کے خلاف ہیں۔ اس لیے حجت نہیں۔ جیسا کہ اصول حدیث میں مذکور ہے، ایک رات میں قرآن مجید میں خشوع خضوع اور اداب تلاوت بھی نہیں رہتا۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب۔ (حررہ علی محمدسعیدی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب