سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) حافظ محمد اسد اللہ عتیق جن کی عمر تیرہویں سال میں ہے..الخ

  • 4130
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1086

سوال

(127) حافظ محمد اسد اللہ عتیق جن کی عمر تیرہویں سال میں ہے..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حافظ محمد اسد اللہ عتیق جن کی عمر تیرہویں سال میں ہے، ہم اس سے نماز تراویح میں قرآن مجید سننا چاہتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جائز ہے، تراویح اور دوسرے نوافل کے علاوہ آپ فرائض بھی نابالغ مگر باہوش لڑکے کے پیچھے پڑھ سکتے ہیں۔ بالخصوص نوافل میں بچوں کی امامت احناف میں سے مشائخ بلخ بھی جائز سمجھتے ہیں۔ (ہدایہ باب الامۃ) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ سے مشہور یہ ہے کہ نوافل میں ان کی اقتداء جائز ہے۔ ((وقال فی الفتح والمشہور عنھما الاجزاء فی النوافل دون الفرائض)) (نیل الاوطارت ص ۱۴۰ باب ما جاء فی امامۃ الصبی)

(۱)        حضرت عمرو بن سلمہ جب کہ وہ ابھی چھ یا سات سال کے تھے، نبی اکرم ﷺ کے عہد میں ساری نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ ۱۰۰ باب الامامت فصل ثالث) حضرت عاصم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ فرض نمازیں ہوں یا نماز جنازہ ہمیشہ وہی اپنی قوم کو پڑھاتے رہے ہیں۔ ((فلم یزل امام قومه فی الصلٰوة وعَلٰی جنائزھم)) (قیام اللیل صفحہ ۱۷۳) معلوم رہے کہ حضرت عمرو بن سلمۃ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ عمر میں کم سن ہیں۔ ۸۵ھ میں وفات پائی تھی۔ (دول الاسلام صفحہ ۴۳ للذہبی المتوفی صفحہ ۴۶)

(۲)        حضرت اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ صحابی ہیں، وہ اپنے قبیلہ کندی کے روساء میں تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں وزیر رہے، آذربیجان کے گورنر اور صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سپہ سالار تھے۔ اور ان کے چالیس دن بعد ۴۰ھ میں وفات پائی۔ (دول الاسلام ذہبی) انہوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں ایک کم سن بچے کو تراویح کے لیے امام مقرر کیا تھا۔ لوگوں نے اعتراض کیا۔ تو فرمایا کہ میں نے قرآن کی بنا پر اس کو آگے کیا۔ ((الشعت بن قیس انہ کان امرا تقدم غلاما صغیرا فام الناس فعابوا علیہ فقال انی انما قدمت القراٰن)) (قیام اللیل ص ۱۷۴) مطبع اثریہ

(۳)       حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنا اور صحابہ کا یہ تعامل پیش کرتی ہیں۔ کہ ہم مدارس عربیہ سے بچوں کو لے آتے، اورا ن کے پیچھے نماز تراویح پڑھا کرتے تھے۔ ((عن عائشة کنا ناخذ الصبیان م الکتاب ونقد مھم یصلون لنا شھر رمضان الخ)) (قیام اللیل ص ۱۷۴)

(۴)       حضرت امام زہری (ف ۱۲۴ھ) فرماتے ہیں کہ ہمیں شروع سے ہی خبر پہنچتی رہی ہے کہ جو نابالغ بچے نماز پڑھ جانتے تھے، اور ان کو قرآن بھی آتا تھا۔ وہ لوگوں کو سب نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ ((لم یزل یبلغنا ان الغلمان یصلون بالناس اذا عقلوا الصلٰوة وقرؤا القراٰن فی رمضان وغیرہ وان لم یحتلموا)) (قیام اللیل ص ۱۷۴ مطبع اثریہ)

(۵)       امام حسن بصری (ف ۱۱۰ھ) فرماتے ہیں کہ اگر بچے نماز اچھی طرح پڑھ سکتے ہوں، تو بچوں کی امامت میں کوئی حرج نہیں ہے، ((لا باس بامامة الغلام الذی لم یحتلم اذا احسن الصلوٰة)) (قیام اللیل صفحہ ۱۷۴) مطبع اثریہ، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ حضرت عمر کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے تھے، اور انہوں نے ہی ان کو گھٹی پلائی تھی، ان کی والدہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں۔ حضرت ابن عباس حضرت ابو موسیٰ، اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے تعلیم پائی تھی، کہتے ہیں کہ صوفیائے کرام کا سلسلہ تصوف انہی کے واسطہ سے حضرت علی رضی اللہ عن تک پہنچتا ہے۔ واللہ اعلم۔

(۶)        حضرت سعید بن جبیر تابعی (ف ۹۵ھ) نے حضرت ابو سلمۃ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے کوئی حدیث سنائیے۔ انہوں نے کہا حضور کا ارشاد ہے، جب تین آدمی سفر کو نکلیں۔ تو ان میں سے جو سب سے بہتر قرآن پڑھ سکتا ہو۔ وہ نماز پڑھایا کرے، خواہ وہ کم سن بچے کیوں نہ ہوں۔

((قال ابو سلمة قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا خرج ثلثة فی سفر فلیومہم اقرأھم وان کان اصغرھم))(قیام اللیل ص ۱۷۷ مطبع اثریہ)

ہاں! بعض بزرگوں نے بچوں کی امامت سے پرہیز کیا ہے، مگر صرف اس لیے کہ صفائی کا خاطر خواہ خیال نہ رکھا گیا ہو۔یا یہ کہ اہل ترین بزرگوں کے ہوتے، بچوں کو آگے لانا سؤاوبی ہے، لیکن یہ مسئلہ کی بات نہیں۔ صرف احتیاط کا مسند ہے، باقی رہی منع کی کوئی مرفوع حدیث تو وہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح ان کے دوسرے دلائل کا حال ہے، جو استنباطی ہیں، تکلف ہیں، جو عقلی ہیں، اوہام ہیں، اور جو تکلفات ہیں۔ مسلکی حمیت اور تقلیدی ضرورت کے سلسلے کے میلے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (الاعتصام لاہور جلد ۲۶ شمارہ نمبر۱ ۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 353-356

محدث فتویٰ

تبصرے