السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حافظ قرآن امام تراویح کے پیچھے ناظرہ خواں نیت باندھ کر اپنے سامنے قرآن کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ اگر حافظ بھول جاتا ہے۔ یا بھٹک جاتا ہے۔ تو یہ ناظرہ خواں اس کو بتا دیتے ہیں۔ اور خود ہی ورق بھی الٹتے ہیں کیا ناظرہ خواۃ کا یہ فعل جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلاز ذکوان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ و تابعین کو قرآن دیکھ کر تراویح کی نماز پڑھاتے تھے۔ ((ابو داؤد فی کتاب المصاحب وابن ابی شیبة والشافعی وعبد الرزاق)) اسی اثر کی رو سے امام اعظم یعنی امام مالک رحمہ اللہ اور صاحبین کے نزدیک غیر حافظ شخص کا قرآن سے تراویح پڑھانا جائز ہے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وابن حزم اور بعض دیگر ائمہ کے نزدیک ناجائز ہے، اور اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔
((لکونه عملاً کثیراً ولان عمر کان ینہٰی عنه۔ العینی۔ وتاول اثر عائشة بعض الحنفیة انه کان یحفظ من المصحف فی النھار ویقرأة فی اللیل فی الصلوة عن ظہر قلب))
بعض لوگ اس اثر کو سامنے رکھ کر امام تراویح کے پیچھے ناظرہ خواں کے قرآن کھول کر سامنے رکھنے۔ اور اوراق اُلٹنے اور بوقت نسیان امام کو تلقین کرنے کو جائز قرار دیتے ہٰں۔ لیکن مجھے اس کے جواز میں تامل و تردد ہے قرون ثلثہ دلہا بالخیر میں … اس کی نظر نہیں ملتی اور جو صورت منقول ہے، قطع نظر اُس بات کے کہ وہ محض ایک اثر ہے، اس کے خلاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول مروی ہے، و نیز اس کے جواز میں عند الائمۃ اختلاف ہے، پس اس پر صورت مسئولہ کا قیاس کرنا محل تامل ہے۔ (محدث دہلی جلد نمبر ۹ شمارہ نمبر ۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب