سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106) کتنی رکعتیں نماز تراویح کی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں؟

  • 4109
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4783

سوال

(106) کتنی رکعتیں نماز تراویح کی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کتنی رکعتیں نماز تراویح کی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں، اور خلفائے راشدین کا کیا عمل رہا ہے، اور فی زماننا بعض بعض آٹھ رکعت پر اکتفا کرتے ہیں، اور بعض نے بیس رکعت پر مداومت کرنے کو زیادہ ثواب جانا ہے، افعال و اقوال جو آپ کے اور آپ کے خلفاء کے ہوں بیان فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مذکورہ فی السوال میں حال تراویح کا یہ ے کہ زمانہ رسول اللہ ﷺ میں ثبوت تراویح کا مختلف طور سے ہے، بعض روایات سے آٹھ ثابت ہوتی ہیں اور بعض سے بیس اور بعض سے بیس سے زیادہ ثابت ہوتی ہیں، لیکن زمانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے موافق بیس رکعت پر اجماع ہو گیا، اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ((لا تجتمع امتی علی الضلالۃ)) ’’میری امت کا اجماعت گمراہی پر نہیں ہو گا۔‘‘خاص کر صحابہ کرام کا اجماع اور صحاح میں یہ حدیث ہے۔

((علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین))

 ’’تم میری سنت اور خلفائے مہدیین کی سنت پر عمل کرنا۔‘‘

جو شخص بیس رکعت سے انکار کرے۔ وہ شخص حدیث ((علیکم بسنتی الخ)) کا منکر ہو گا۔ اور جس حدیث سے بیس رکعت ثابت ہیں، وہ یہ ہے۔

((فی المؤطا عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرین رکعة))

’’یزید بن رومان نے کہا، حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں لوگ تئیس رکعت پڑھا کرتے تھے۔‘‘

جو شخص کہ اجماع سے انکار کرے، اس کی تنبیہ کے واسطے یہ حدیث کافی ہے۔

((من شذ شذ فی النار))

’’جو الگ ہوا وہ جہنم میں گیا۔‘‘

یعنی جو مسلمانوں کے گروہوں سے جدا ہو جائے وہ دوزخ میں تنہا ہو گا۔ العبد المجیب محمد وصیت مدرس مدرسہ حسین بخش۔

ہو المصوب:… سوال مذکوہ کا یہ جواب جو مجیب نے لکھا ہے، بالکل غلط ہے، اب پہلے سوال مذکور کا صحیح جواب لکھا جاتا ہے، پھر عجیب کے جواب کے غلط ہونے کی وجوہ لکھی جائیں گی، پس واضح ہو کہ احادیث صحیحہ سے رسول اللہ ﷺ نے نماز تراویح کی مع وتر کے گیارہ رکعتیں ثابت ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے۔

((عن ابی سلمة بن عبد الرحمن انه سأل عائشة رضی اللہ عنہا کیف کانت صلوة رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان فقالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احد عشرة رکعة الحدیث))

’’ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان میں کیسے ہوا کرتی تھی۔ آپ نے کہا رمضان ہو یا غیر رمضان آپ ﷺ کی نماز گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔‘‘

یعنی ابو سلمۃ بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان میں کیونکر تھی، یعنی آپ تراویح کی نماز کتنی رکعت پڑھتے تھے، پس عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، نہ رمضان میں اور نہ غیر رمضان میں یعنی آنحضرت ﷺ کی نماز تراویح کی تعداد گیارہ رکعت تھی، جیسا کہ اس مدعی کو ابن حبان وغیرہ کی یہ روایت خوب صراحت کے ساتھ ثابت کیے دیتی ہے۔

((عن جابر رضی اللہ عنه قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر الحدیث رواہ ابن خزیمة وابن حبان فی صحیحما ھکذا فی المفاتیح وسبل السلام ونیل الاوطار))

’’یعنی جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعت نماز پڑھائی، پھر وتر پڑھے۔ روایت کیا اس کو ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اپنے صحیح میں۔‘‘

 یہ حدیث صحیح و قابل احتجاج ہے، کسی محدث نے اس کو ضعیف نہیں کہا ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ابی اور تمیم داری کو نماز تراویح پڑھانے کا حکم کیا تو گیارہ ہی رکعت پڑھانے کا حکم کیا نہ زیادہ نہ کم مؤطا امام مالک میں ہے۔

((عن السائب بن یزید انه قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة))

’’یعنی سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم کیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھایا کریں۔‘‘

 سند اس کی بہت صحیح ہے، اور مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن سعید بن منصور میں بھی یہ روایت موجود ہے، اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم کیا تو ظاہر ہے کہ خود بھی گیارہ ہی رکعت پڑھتے رہے ہوں گے اور خلفائے راشدین میں سے حضرت ابو بکر و حضرت عثمان و حضرت علی رض ا للہ عنہ کا حال صحیح روایت سے ثابت نہیں کہ یہ لوگ کتنی رکعت پڑھتے تھے، مگر جب حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے تھے، اور جن راتوں میں آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ باجماعت تراویح پڑھی ان راتوں میں بھی گیارہ ہی رکعت پڑھنا ثابت ہے تو ظاہر یہی ہے کہ یہ لوگ بھی گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے رہے ہوں گے، خلاصہ جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تراویح گیارہ رکعت ثابت ہے، اور خلفائے راشدین میں سے تراویح کی تعداد ثابت نہیں، مگر ظاہر یہی ہے کہ یہ لوگ بھی گیارہ رکعت پڑھتے رہے ہوں گے، واللہ اعلم مجیب مذکور کے جواب مذکور کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دو دعوے کیے ہیں، اور دونوں دعوے باطل ہیں۔ پہلا دعویٰ یہ کیا ہے کہ ’’زمانہ رسول اللہ ﷺ میں ثبوت تراویح کا مختلف طور سے ہے۔ بعض روایات سے آٹھ ثابت ہوتی ہیں، بعض سے بیس اور بعض سے بیس سے زیادہ بھی ثابت ہوتی ہے۔‘‘ اس دعویٰ کا بطلان بالکل ظاہر ہے، اس واسطے کہ زمانہ نبوی میں ثبوت تراویح کا ہر گز مختلف طورسے نہیں ہے، نہ رسول اللہ ﷺ سے اور نہ کسی صحابی سے اوپر معلوم ہو چکا کہ آنحضرت ﷺ صرف گیارہ رکعت تراویح پڑھتے تھے، اور آپ سے بیس رکعت تراویح پڑھنے کی روایت جو بیہقی وغیرہ میں مروی ہے، وہ بالکل ضعیف ہے، اس کے ضعیف ہونے کی تصریح خود حنفیہ نے بھی کی ہے، اور آپ سے بیس سے زیادہ پڑھنے کی تو کوئی روایت ہی نہیں آئی ہے، اور زمانہ نبوی میں کسی صحابی سے بھی بیس رکعت یا بیس سے زیادہ پڑھنا ہر گز کوئی ثابت نہیں کر سکتا، پس مجیب کا یہ پہلا دعویٰ سراسر غلط و باطل ہے، اور دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ ’’زمانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے موافق بیس رکعت پر اجماع ہونا، البتہ ثابت ہے، جیسا کہ سائب بن یزید کی روایت مذکورہ بالا سے ظاہر ہے، ونیز مؤطا کی اس روایت سے ظاہر ہے۔

((عن داؤد بن الحصین انه سمع الاعرج یقول ما ادرکت الناس الادھم یلعنون الکفرة فی رمضان وکان القاری یقراء البقرة فی ثمان رکعات فاذا قام بها فی اثنتی عشرة رکعة رأی الناس انه خفف))

’’یعنی داؤد بن حصین سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اعرج سے سنا وہ کہتے تھے، کہ نہیں پایا میں نے لوگوں کو مگر اس حالت میں کہ وہ کافروں پرلعنت کرتے تھے، رمضان میں اور قاری پڑھتا تھا۔ سورۃ بقرہ آٹھ رکعتوں میں اور جب کبھی سورہ بقرہ کو بارہ رکعتوں میں پڑھتا تو لوگ سمجھتے کہ آج اس نے تخفیف کی۔‘‘

اس روایت سے صاف ثابت ہوتا ہے، کہ زمانہ عمر بن الخطاب میں عام طور پر آٹھ رکعت تراویح پڑھی جاتی تھی، اور کبھی کبھی بارہ رکعت پڑھ لی جاتی تھی، اور مجیب نے جو بیس رکعت کے ثبوت میں اور بیس رکعت پر اجماع ہونے کے ثبوت میں یزید بن رومان کی حدیث مؤطا سے نقل کی ہے، سویہ حدیث صحیح نہیں ہے، بلکہ منقطع ہے، یزید بن رومان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے، امام زیلعی حنفی تخریج ہدایہ میں لکھتے ہیں۔ ((ویزید بن رومان لم یدرك عمر انتہی)) الحاصل مجیب مذکور کا جواب دو دعوؤں پر مشتمل ہے، اور دونوں دعوے غلط و باطل ہیں، لہٰذا مجیب کا جواب مذکور غلط ہے، اور ہاں مجیب کا جواب مذکور خود اجلہ فقہائے حنفیہ کے قول سے بھی باطل ہے، علامہ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ جو مذہب حنفی کے بہت بڑے حامی ہیں۔ فتح القدیر میں صاف لکھتے ہیں کہ تراویح گیارہ رکعت سنت ہے۔

((فحصل من ھذا ان قیام رمضان احدی عشرة رکعة بالوتر فی جماعة فعلیه علیه السلام انتہی ما فی فتح القدیر بقدر الحاجة))

یعنی تحریر بالا سے یہ بات حاصل ہوئی کہ تراویح گیارہ رکعت مع وتر رسول اللہ ﷺ کا فعل ہے، اور ایسا ہی بحر الرائق شرح کنز الدقائق و طحطاوی میں ہے کہ تراویح اسی قدر سنت ہے جس قدرآنحضرت سے ثابت ہے، یعنی گیارہ رکعت مع وتر۔ اور فتح المعین شرح الشرح کنز کی ہے، اس میں فتاوے شر نبلالیہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی تھی، وہ گیارہ ہی رکعت تھی، اور وہ حدیث جو روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے، سو یہ حدیث ضعیف ہے۔

((وفی الشر بنالیة الذی فعله علیه السلام بالجماعة احدی عشرة رکعة بالوتر وما روی ان کان یصلی فی رمضان عشرین سوی الوتر ضعیف انتہی ما فی فتح المعین))

دیکھو ان اجلہ فقہا کے قول سے مجیب کا جواب مذکور کیسا صاف باطل ہوتا ہے، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب حررہ السید عبد الحفیظ عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)

ہو الموفق:… فی الواقع احادیث صحیحہ سے گیارہ ہی رکعت تراویح مع وتر رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، جیسا کہ مجیب ثانی نے لکھا ہے، اور کسی حدیث صحیح سے رسول اللہ ﷺ کا بیس رکعت تراویح پڑھنا یا اس سے زیادہ پرھنا ہرگز ثابت نہیں، اور بیس رکعت کی حدیث جو حنفیہ پیش کرتے ہیں، وہ ضیعف اور ناقابل احتجاج ہے، اور باوجود ضعیف ہونے کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی گیارہ رکعت والی حدیث صحیح کے خلاف ہے، علمائے حنفیہ نے بھی اس کی تصریح کی ہے، علامہ ابن الہمام فتح القدیر صفحہ ۲۰۵ جلد ۱ میں لکھتے ہیں۔

((واما ما روی ابن ابی شیبة فی مصنفة والطبرانی والبیہقی من حدیث ابن عباس انه علیه السلام کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر ضیعف بابی شیبة ابراهیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة متفق علی ضعفه مع مخالفة للصحیح انتہی))

’’یعنی جو ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور طبرانی اور بیہقی نے ابن عباس کی حدیث سے روایت کی ہے کہ، رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعت وتر کے سوا پڑھتے تھے، سو یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کا راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان جو امام ابو بکر ابن ابی شیبہ کا دادا ہے، باتفاق ائمہ حدیث ضعیف ہے، علاوہ بریں یہ حدیث صحیح کے مخالف بھی ہے۔‘‘

اور علامہ عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری صفحہ ۳۵۸ جلد ۲ میں لکھتے ہیں۔

((فان قلت روی ابن ابی شیبة من حدیث ابن عباس کان رسول اللّٰہ ﷺ یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر قلت ھذا الحدیث رواہ ایضا ابو القاسم البغوی فی معجم الصحابة قال حدثنا منصور بن مزاحم حدثنا ابو شیبة عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس الحدیث وابو شیبة ھو ابراھیم بن عثمان العبسی الکوفی قاضی واسط جد ابی بکر بن ابی شیبة کذبه شعبة وضعفه احمد و ابن معین والبخاری والنسائی وغیر ھم و اوردله ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ انتہی))

’’یعنی اگر تم سوال کرو کہ ابن ابی شیبہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے، تو میں اس کے جواب میں کہوں گا، کہ اس حدیث کو ابو القاسم بغوی نے بھی معجم صحابہ میں روایت کیا ہے، اور ابو شیبہ جو اس حدیث کا ایک راوی ہے، اس کا نام ابراہیم بن عثمان ہے، اور ابو بکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے، شعبہ نے اس کو جھوٹا کہاہے، اور امام احمد اور بخاری و نسائی و غیرہم نے اس کو ضعیف کہا ہے، اور ابن عدی نے کامل میں اس حدیث کو ابو شیبہ کی منکر حدیثوں میں درج کیا ہے۔‘‘

 اور علامہ زیلعی حنفی تخریج ہدایہ صفحہ ۳۹۳ جلد۱ میں لکھتے ہیں۔

((روی ابن ابی شیبة فی مصنفه والطبرانی وعنه البیہقی من حدیث ابراھیم بن عثمان بن ابی شیبه عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس ان النبی ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر الی قوله وھو معلول بابی شیبة ابراھیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة وھو متفق علی ضعفه ولینه ابن عدی فی الکامل ثم انه مخالف الحدیث الصحیح انتہی))

’’یعنی ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور طبرانی اور بیہقی نے ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ رمضان میں بیس رکعت پڑھتے تھے، سوی وتر کے اور یہ حدیث معلول ہے، یعنی ضعیف ہے، اس وجہ سے کہ اس کا ایک راوی ابو شیبہ ابراہیم بالاتفاق ضعیف ہے، اور ابن عدی نے کامل میں اس کو ضعیف کہا ہے، پھر باوجود ضعیف ہونے کے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث صحیح کے مخالف ہے۔‘‘

دیکھو علاممہ ابن الہمام اور علامہ عینی اور حافظ زیلعی جیسے جلیل القدر علماء حنفیہ نے بیس رکعت والی حدیث کی کس طرح پر صاف صاف تضعیف کی ہے، اور علاوہ ان علمائے حنفیہ کے علمائے محدثین نے بھی تضعیف کی ہے دیکھو تلخیص الجیر صفحہ ۱۱۹ اور فتح الباری صفحہ ۳۱۷ جلد ۲ اور نیل الاوطار صفحہ ۲۹۹ جلد ۲ حاصل یہ کہ احادیث صحیحہ سے رسول اللہ ﷺ کا گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھنا ثابت ہے، اور آپ کا بیس رکعت تراویح پڑھنا کسی حدیث صحیح سے ہر گز ہر گز ثابت نہیں ہے، اور بیس رکعت والی حدیث بالکل ضعیف و غیر معتبر ہے، اس کے راوی ابو شیبہ کو شیبہ نے جھوٹا کہا ہے، اور شعبہ کے سوا اور محدثین نے اس کو ضعیف و غیر معتبر بتایا ہے، اور رسول اللہ ﷺ سے بیس رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنے کی کوئی حدیث ہی نہیں آئی ہے، نہ ضعیف اور نہ غیر ضعیف اور زمانہ رسول اللہ ﷺ میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی بیس رکعت یا بیس رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنا ہر گز ثابت نہیں ہے، بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے جو اپنی تراویح کی رکعتوں کی بھی تصریح کی ہے، تو اسی قدر جس قدر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، یعنی آٹھ رکعت اور وتر۔ امام محمد بن مروزی کی کتاب قیام اللیل صفحہ ۱۶۰ میں ہے۔

((وبه عن جابر جاء ابی بن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللّٰہ کان اللیلة شئی قال وما ذاك یا ابی قال نسوة داری قلن انا لا نقرأ القراٰن فنصلی بصلوتك فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنه وکان شبه الرضا))

’’یعنی جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابی بن کعب رمضان میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا یا رسول اللہ رات کو ایک بات ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا کون سی بات ہو گئی ہے، اے ابی! انہوں نے عرض کیا کہ مرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ہیں، پس ہم لوگ تمہارے پیچھے نماز پرھیں گے، اور تمہاری اقتدا کریں گے تو میں نے ان کو آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے، پس رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر سکوت کیا۔ اور گویا اس بات کو پسند فرمایا۔‘‘

ہمارے اتنے بیان سے صاف واضح ہے کہ عجیب اول کی یہ بات کہ ’’زمانہ رسول اللہ ﷺ میں ثبوت تراویح کا مختلف طور سے ہے، بعض روایات سے آٹھ ثابت ہوتی ہیں، اور بعض سے بیس اور بعض سے بیس سے زیادہ ثابت ہوتی ہیں، غلط بات ہے، اور فی الواقع خلفائے راشدین میں سے بجز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اور کسی سے صحیح سند ہے، کچھ ثابت نہیں کہ وہ حضرات کتنے تراویح پڑھتے تھے، یا کتنی رکعت تراویح پڑھانے کا حکم فرماتے تھے، ہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح ثابت ہے کہ آپ گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم فرماتے تھے، جیسا کہ مجیب ثانی نے مؤطا کی بہت صحیح روایت سے اس کو ثابت کیا ہے، اور امام بیہقی کی کتاب معرفۃ السنن والآثار میں ہے۔

((قال الشافعی اخبرنا مالك عن محمد بن یوسف عن السائب ابن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما اللناس باحدی عشرة رکعة الحدیث))

’’یعنی سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تیمیم داری کو حکم دیا کہ گیارہ رکعت تراویح لوگوں کو پڑھایا کریں اور اسی طرح پر امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب قیام اللیل صفحہ ۱۶۲ میں بھی ہے، اور زمانہ عمر بن الخطاب میں حسب حکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عموماً تمام لوگ گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے تھے۔‘‘

 چنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی اپنے رسالہ المصابیح صفحہ ۱۹ فی صلوٰۃ التراویح میں لکھتے ہیں کہ سنن سعید بن منصور میں ہے۔

((حدثنا عبدا لعزیز بن محمد حدثنی محمد بن یوسف سمعت السائب بن یزید یقول کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب باحدی عشرة رکعة الحدیث))

’’یعنی سائب بن یزید کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔‘‘

 حافظ سیوطی اس روایت کی سند کی نسبت لکھتے ہیں۔ ((سندہ فی غایة الصحة)) ’’یعنی اس روایت کی سند نہایت صحیح ہے۔‘‘دیکھو نہایت صحیح سند سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عموماً تمام لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے تھے رہی یہ بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود کتنی رکعت تراویح پڑھتے تھے، سو بالکل ظاہر ہے کہ جب آپ اوروں کو گیارہ رکعت پڑھنے کا حکم فرماتے تھے، تو خود بھی گیارہ ہی رکعت پڑھتے رہے ہوں گے، اور مجیب اول نے جو موطا سے یہ روایت نقل کی ہے۔

((عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرین رکعة))

’’یعنی یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تیئس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔‘‘

سو یہ روایت منقطع ہے، اس وجہ سے ضعیف و غیر معتبر ہے علمائے حنفیہ نے بھی اس روایت کے منقطع ہونے کی تصریح کی ہے، علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری صفحہ ۴۰۸ جلد ۲ میں لکھتے ہیں۔ ((ویزید لم یدرك عمر القطاع)) ’’یعنی یزید بن رومان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے، پس اس کی سند منقطع ہے۔‘‘ونیز اسی کتاب کے صفحہ ۳۵۶ جلد ۵ میں لکھتے ہیں، رواہ مالک فی المؤطا باسناد منقطع یعنی امام مالک نے اس کو مؤطا میں سند منقطع سے روایت کیا ہے، اور حافظ زیلعی نے بھی اس روایت کی سند کو منقطع بتایا ہے، حاصل یہ کہ خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے عموماً تمام لوگوں کا گیارہ رکعت تراویح پڑھنا نہایت صحیح سند سے ثابت ہے، اور آپ کے زمانہ میں آپ کے حکم سے عموماً تمام لوگوں کا تیئس رکعت مع وتر پڑھنا ہر گز ہر گز کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے، ہمارے اتنے بیان سے صاف واضح ہو گیا کہ مجیب اول کی یہ بات کہ ’’زمانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے موافق بیس رکعت پر اجماع ہو گیا۔‘‘ بالکل غلط ہے، اور گیارہ رکعت تراویح کے قائلین کی نسبت مجیب اول نے جو تعریضاً ایک بے جا اور ناملایم تقریر لکھی ہے، وہ خود انہیں پر اور ان کے ہم خیالوں پر عائد ہو گئی۔ کتبۂ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفاء اللہ عنہٗ۔

(فتاویٰ نذیریہ جلد ۱ ص ۶۳۴)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 331-340

محدث فتویٰ

تبصرے