سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(74) کتنے گواہ ہوں کہ روزہ کے بارہ میں ان کی رؤیت کا اعتبار ہو سکتا ہے؟

  • 4077
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3587

سوال

(74) کتنے گواہ ہوں کہ روزہ کے بارہ میں ان کی رؤیت کا اعتبار ہو سکتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کتنے گواہ ہوں کہ روزہ کے بارہ میں ان کی رؤیت کا اعتبار ہو سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث میں ہے:

(۱) ((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنه قَالَ جَاءَ اَعْرَابِیٌّ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ اِنِّیْ رَئَیْتُ الْھِلَالَ یَعْنِیْ ھِلَالَ رَمَضَانَ فَقَالَ اَتَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ قَالَ نَعَمْ قَالَ اَتَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ یَا بِلَالُ آذِّنْ فِی النَّاسِ اَنْ یَّصُوْمُوْا غَدًا رواہ ابو داؤد والترمذی والنسائی وابن ماجة والدارمی مشکوٰة))

’’یعنی ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ کہا میں نے چاند دیکھا ہے، یعنی رمضان کا چاند، آپ نے فرمایا: کہ تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں۔ اس نے کہا: ہاں! کہا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اس ے کہا۔ ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے بلال ! لوگوں میں اعلان کر دے کہ کل روزہ رکھیں۔‘‘

(۲) ((عن ابن عمر رضی اللہ عنه قال ترا الناس الھلال فاخبرتُ رسول اللہ ﷺ اِنِّیْ رأیته فصام وامر الناس بصیامه رواہ ابو داؤد والدارمی)) (مشکوٰة)

’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ لوگ چاند دیکھنے لگے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ میں نے بھی چاند دیکھا ہے، میری خبر پر آپ نے خود بھی روزہ رکھا۔ اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

(۳) ((عن ربعی بن خراش عن رجل من اصحاب النبی ﷺ قال اختلف الناس فی اٰخر یوم من رمضان فقدم اعزا بیان فشھدا عند النبی ﷺ باللّٰہ لا ھلال امس عینیة فامر رسول اللّٰہ ﷺ الناس ان یفطر وا رواہ ابو داؤد زواد فی روایۃ وان یغدوا الی مصلاھم۔ منتقی الاخبار))

’’یعنی اخیر رمضان میں عید کے چاند میں لوگوں کا اختلاف ہوا۔ پس دو اعرابی آئے۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم ہم نے کل چاند دیکھا ہے، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کریں۔ اور صبح عید گاہ کی طرف نکلیں۔‘‘

(۴) ((عن عبد الرحمٰن بن زید بن الخطاب فی الیوم الذی شك فیه فقال الا انی جالست اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ وسألتھم وانھم حدثونی ان رسول اللہ ﷺ قال صومو الرؤیته وافطر والرؤیته وانسکو الھأ فان غم علیکم فاتموا ثلثین یوماً فان شھد شاھد ان مسلمان فصوموا وافطر رواہ احمد ورواہ النسائی ولم یقل فیه مسلمان))

’’عبد الرحمن بن زید نے اس دن خطبہ پڑھا۔ جس میں لوگوں کو شک ہو گیا۔ فرمایا میں نے رسو ل اللہ ﷺ کے اصحاب کی مجالس کی ہے، اور ان سے سوال و جواب کیا ہے، انہوں نے مجھے حدیث سنائی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چاند دیکھ کر روزہ رکھو۔ اور دیکھ کر افطار کرو۔ اور اس کی رؤیت کے مطیع رہو۔ اگر چاند پوشیدہ ہو جائے تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔ اگر دو مسلمان اس کی رویت کی گواہی دیں تو ان کی شہادت سے روزے رکھو، اور افطار کرو۔ اس کو احمد رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، اور نسائی نے بھی روایت کیا ہے، مگرا س میں مسلمان کا لفظ نہیں ہے۔‘‘

(۵) ((عن امیر مکة الحارث بن حاطب قال عہد الینا رسول اللّٰہ ﷺ ان ننسك للرؤیته فان لم نرہ وشھد شاھدا عدل نسکنا بشادتھما۔ رواہ ابو داؤد والدارقطنی وقال ھذا اسناد متصل صحیح۔ منتقی الاخبار))

’’یعنی امیر مکہ حارث بن حاطب سے روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں وصیت کی کہ رؤیت کے مطیع رہیں۔ اگر چاند نظر آ جائے تو دو عادل شخصوں کی گواہی پر عمل کریں۔‘‘

عید اور روزہ کے چاند میں فرق

ان روایتوں سے کئی مسائل معلوم ہوئے۔ ایک یہ کہ رمضان کے چاند اور عید کے چاند میں فرق ہے، عید کے چاند کی دو شہادت ہونی چاہیے۔ رمضان کے لیے ایک کی شہادت کافی ہے۔

۴ کی حدیث میں اگرچہ دو کی شہادت کا ذکر ہے، لیکن نمبر ۱ اور نمبر ۳ کی احادیث میں چونکہ ایک کی شہادت بھی آگئی ہے، اس لیے ایک بھی کافی ہے۔

اگر عید کے چاند کے لیے بھی کسی روایت میں ایک کی شہادت آ جاتی تو اس پر بھی عمل جائز ہوتا مگر جہاں تک ہمیں علم ہے کوئی ایسی روایت نہیں آئی۔ نیز عبادت ایک بوجھ ہے، اس کی شہادت میں کوئی خوش نہیں کہ شبہ کا احتمال ہو بخلاف عید کے چاند کے کہ عید ہونے کی وجہ سے اس میں شبہ ہے، اس لیے شہادت میں دو کا عہد مناسب ہے۔

مسلمان کی شہادت

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ شہادت مسلمان کی معتبر ہے، غیر مسلم کی شہادت کا اعتبار نہیں۔ نیز عادل ہونا بھی شرط ہے۔

تار برقی اور ٹیلی فون

اور اسی سے تار برقی اور ٹیلی فون کا حکم بھی معلوم ہو گیا۔ ٹیلی فون کے ذریعہ بات کرنے والا اگر مسلمان ہے، شرع کا پابند ہے۔ تو اس کی شہادت معتبر ہے۔ ورنہ نہیںج۔ اور تار برقی کی خبر میں چونکہ کوئی واسطے پڑتے ہیں۔ جن کا علم نہیں ہوتا کہ مسلمان ہے یا غیر مسلم، اگر مسلمان ہے تو عادل۔ شرع کا پابند ہے یا نہیں۔ اس لیے اس کا مطلقاً اعتبار نہیں۔ ہاں اگر تاروں کے ذریعہ سے خبر پہنچے جو حد تواتر کو پہنچ جائیں۔ تو اس وقت واسطہ خواہ کیسا ہی ہو۔ خبر معتبر ہو گی۔ (؎۱)

(؎۱) حافظ صاحب مرحوم نے غیر مسلم کی شہادت میں حد تواتر کی قید لگائی ہے۔ اور مولانا محمد اسمٰعیل سلفی گوجرانوالہ نے تار اور ٹیلی فون میں قرائن سے درجہ یقین حاصل ہونے کی شر ط لگائی مطلب دونوں کا ایک ہی ہے۔ ۱۲۔ (سعیدی)

کیونکہ تواتر میں واسطے کے حال کو نہیں دیکھا جاتا۔ چنانچہ اصول حدیث میں یہ ثابت ہو چکا ہے، اور تواتر کے لیے کوئی عدد مقرر نہیں بلکہ جتنے عدد سے علم یقین ہو جائے وہی تواتر ہو گا۔ سو کسی جگہ زیادہ تعداد سے یقین ہوتا ہے، کسی جگہ تھوڑی تعداد سے۔ سو جتنی تاروں کے ذریعہ سے علم یقینی ہو جائے شبہ اور احتمال کی گنجائش نہ رہے۔ اتنی تعداد کا اندازہ کر لینا چاہیے۔ اور تعداد سے مراد یہ ہے کہ متعدد جگہ سے متعدد شخص تار دیں۔ نہ یہ کہ ایک ہی شخص بار بار تار دے۔ ان احادیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر چاند نظر نہ آئے ن کوئی شہادت ہو تو تیس کی تعداد پوری کر لینی چاہیے اگر کوئی ایسی شہادت گزرے جو شرعاً معتبر نہیں۔ تو ایسے موقعہ پر شہادت دینے والا خواہ واقعہ میں سچا ہے، اس کو اپنی رؤیت پر عمل نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ باقی لوگوں سے موافقت کرے، جس دن وہ روزہ رکھیں اُس دن روزہ رکھے۔ جس دن افطار کریں۔ اُس دن افطار کرے۔ بلکہ عید الاضحی کا بھی یہی حکم ہے۔ حدیث میں ہے:

((الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والاضحیٰ یوم تضحون)) (ترمذی)

’’یعنی روزہ کا دن وہی ہے، جس دن تم روزہ رکھو۔ اور افطاری کا دن وہی ہے، جس دن تم افطاری کرو۔ اور قربانی کا دن وہی ہے، جس دن تم قربانی کرو۔‘‘

ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر پہلے دن عید کی نماز کا موقعہ نہ ہو۔ اور رؤیت ہلال کی خبر دیر سے ملی تو عید دوسرے روز بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے (۳) کی حدیث میں جملہ وان یغدوا الی مصلاہم سے ظاہر ہے یہ جملہ اگرچہ صحیح نہیں۔ مگر مسئلہ درست ہے، کیونہ اس کی بابت ایک صریح روایت بھی آئی ہے، مشکوٰۃ میں ہے:

((ان رکبا جاؤا الی النبی ﷺ یشھدون انھم رأو الھلال بالامس فامرھم ان یفطروا واذا اصبحوا ان یغدوا الی مصلاھم رواہ ابو داؤد والنسائی))

’’یعنی کئی سوار رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے عید کا چاند دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ روزہ افطار کریں، اور جب صبح کریں تو عیدگاہ کی طرف نکلیں۔‘‘

 اس حدیث میں عید کا دوسرے دن پڑھنا صراحتہً مذکور ہے۔ مگر یہ ذکر نہیں کہ وہ سوارکس وقت آئے تگھے۔ نہ یہ صریح کہ یہ حکم سب لوگوں کو تھا یا صرف سواروں کو تھا۔ منتقی میں ایک اور روایت آئی ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ سوار دن کے اخیر حصہ میں آئے، اور اس بات کی بھی تصریح ہے کہ لوگوں کو حکم دیا۔ وہ حدیث یہ ہے کہ عمیر بن انس رضی اللہ عنہ اپنے کئی چچوں سے روایت کرتے ہیں کہ عید کا چاند ہم پر مشتبہ ہو گیا۔ صبح کو ہم نے روزہ رکھا۔ پس آخر حصہ دن میں کئی سوار آئے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس گواہی دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا ہے، رسول اللہ ﷺ نے افطار کا حکم دیا اور فرمایا کل عید کے لیے نکلیں۔ (فتاویٰ اہل حدیث روپڑی جلد ۲ ص ۵۴۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 192

محدث فتویٰ

تبصرے