السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بمبئی میں چاند کی رؤیت ہمارے اہل پنجاب کے لیے کافی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک روایت میں ہے:
((عن کریب ان ام الفضل بعثته الی معاویة رضی اللہ عنه بالشام فقال قدمت فقضیت حاجتہا واستھل علی رمضان وانا بالشام فرأیت الھلال لیلة الجمعة ثم قدمت المدینة فی اٰخر الشہر فسألنی عبد اللہ ابن عباس ثم ذکر الھلال فقال متٰی رأیتم الھلال فقل رأیناہ لیلة الجمعة فقال انت رأیتہٗ فقلت نعم ورأہ الناس وصاموا او صام معاویة فقال لکنا رأیناہ لیلة السبة فلا نزال تصوم حتٰی نکمل ثلثین او نراہ فقل الا تکفی برؤیته معاویة وصیامه فقال لا ھکذا امرنا رسول اللہ ﷺ رواہ الجماعة الا البخاری وابن ماجة))
’’یعنی کریب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام الفضل رضی اللہ عنہا نے مجھے معاویہ کی طرف ملک شا م میں بھیجا۔ میں نے ام الفضل رضی اللہ عنہا کا کام کیا۔ رمضان شریف کا چاند مجھ شام ہی میں چڑھ گیا۔ جمعرات کو میں نے دیکھا۔ پھر آخر رمضان مدینہ میں آیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وہاں کا حال پوچھا۔ پھر چاند کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ ہم نے چاند جمعرات کو دیکھا ہے، فرمایا تو نے خود یکھا ہے، کہا میں نے بھی اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور سب نے روزہ رکھا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ فرمایا ہم نے تو ہفتہ کی رات کو دیکھا ہے، ہم اسی طرح روزے رکھتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ تیس کی گنتی پوری ہو جائے یا چاند اس سے پہلے دیکھ لیں۔ میں نے کہا کیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور ان کے روزہ کے ساتھ کفایت نہیں کرتے کہا نہیں، رسول اللہ ﷺ نے میں اسی طرح حکم دیا ہے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں ان لوگوں پر رد کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کریب رضی اللہ عنہ کی خبر پر اس لیے عمل نہیں کیا کہ ان کے نزدیک ایک شہادت معتبر نہیں، فرماتے ہیں ::
((لکن ظاھر حدیثه انه یردہ ھذا وانما ردہ لان الرؤیة لا یثبت حکمھا فی حق البعید))
’’یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ظاہر اس کو چاہتا ہے کہ ایک شہادت ہونے کی وجہ سے رد نہیں کیا بلکہ اس وجہ سے رد کیا کہ دور والوں کے حق میں حکم رؤیت ثابت نہیں ہوتا۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا ہے ٹھیک کہا ہے، کیونکہ کریب نے جب کہا کہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت پر اعتبار نہیں کرتے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اسی طرح فرمایا ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ چونکہ شام میں تھے۔ تو اس کا مطلب یہی بنا کہ دور والے کی شہادت معتبر نہیں تو یوں کہیے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی شہادت تو معتبر ہے لیکن ذریعہ پہنچنے کا صرف ایک ہے اس لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور دیگر لوگوں کی شہادت درحقیقت تیری شہادت ہے، جو اکیلے کی شہادت ہے، نیز ہلال رمضان کے لیے ایک شہادت معتبر ہے، اور خود ابن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں، چنانچہ اوپر جو اعرابی کی حدیث گذر چکی ہے، جس میں اعرابی کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اتشہد ان لا اله الَّا اللّٰہ وہ ابن عباس ہی کی حدیث ہے، اس سے صاف معلوم ہو اکہ ابن عباس کے رد کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ایک کی شہادت تھی۔ بلکہ دور کی شہادت تھی۔ اس لیے رد کر دی پھر اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی۔ پس یہ مسئلہ پختہ ہو گیا۔ کہ دور کی رؤیت کافی نہیں۔
دور کی حد:
رہی یہ بات کہ دور کی حد کیا ہے، بعض نے کہا کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ہے، مگر امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ شام اور مدینہ کے مطلع میں اختلاف نہیں، تو اختلاف مطلع کا قول ٹھیک نہیں، بعض نے کچھ اور کہا ہے۔ مگر راجح یہ ہے کہ یاک ملک کی شہادت دوسرے ملک کے لیے کافی نہیں۔ کیونکہ شام دوسرا ملک ہے، ظاہر یہی ہے کہ ابن عباس نے دوسرا ملک ہونے کی وجہ سے اعتبار نہیں کیا۔ نیز اوپر جو حدیث گذر چکی ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سواروں کے آنے کا ذکر ہے، اس میں یہ بھی ذکر ہے، کہ جس دن سوارون نے چاند دیکھا اُس سے اگلے دن آخر حصہ میں آئے ہیں۔ اور ظاہر کہ ایسے معاملہ میں عموماً تاخری نہیں کی جاتی بلکہ خبر پہنچانے میں جلدی کی جاتی ہے، اور اہل عوالی۔ جو مدینہ سے اوپر کی طرف آباد تھے۔ اکثر جمعہ عید رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھا کرتے تھے۔ اور کئی ان سے مدینہ سے آٹھ آٹھ کوس کے فاصلہ پر تھے۔ اگر اس حد میں یا اس کے قریب اردگرد چاند دیکھا جاتا تو ان کے آنے میں اتنی تاخیر نہ ہوتی کہ چاند دیکھنے کے دوسرے دن آخر حصہ دن میں پہنچتے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خاصی دور سے آئے تھے۔ پھر ان کا سوار ہونا بھی اس کا مؤید ہے۔ پس جب باوجود خاصی دور سے آنے کی ان کی شہادت مان لی تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ دور والے کی شہادت مطلقاً معتبر نہیں۔ خواہ تھوڑی دور ہو یا زیادہ دور ہو تو آکر یہی بات ٹھہری کہ ایک ملک کی شہادت دوسرے ملک والوں کے لیے معتبر نہیں۔ جیسے شام دوسرا ملک تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کی رؤیت مدینہ والوں کے لیے کافی نہ سمجھی۔ رہا سرحدوں کا معاملہ تو بسبب قریب کے وہ ایک ہی ہیں۔ جب ایک جگہ دوسری جگہ سے اتنی دور ہو کہ رؤیت ہلال میں فرق پڑھ سکتا ہو تو ا س صورت میں ایک جگہ کی رؤیت کا دوسری جگہ اعتبار نہیں ہو گا۔ بمبئی سے یہاں کے مطلع کا کافی فرق ہے، اور بمبئی کا علاقہ ملک بھی دوسرا ہے اس لیے بمبئی کی رؤیت سے ہم پر روزہ ضروری نہیں بلکہ مناسب بھی نہیں۔ (فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ صفحہ ۵۴۵) (عبد اللہ امر تسری روپڑی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب