السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رویت ہلال کے متعلق دو متضاد فتوے اور ان پر محاکمہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مطلع بالکل صاف تھا۔ چاند دیکھنے کی ہر چند کوشش کی گئی، مگر ملک کے کسی گوشہ میں چاند نہیں دیکھا گیا۔ اور حکومت کی طرف سے بھی اعلان ہو گا۔ کہ چاند نظر نہیں آیا۔ لاہور کے دو مذہبی اداروں کی طرف سے روزنامہ کوہستان لاہور میں دو متضاد قسم کے فتاویٰ شائع ہوئے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
جمعیت حزب الاحناف کے صدر مولیٰنا ابو البرکات نے رؤیت ہلا ل کا اعلان کر دیا۔ اور بتایا کہ چار افراد نے جن میں دو مرد اور دو عورتیں شامل ہیں۔ رؤیت ہلال کی شہادت دی۔ جس بنا پر مولیٰنا ابو البرکات کے فیصلہ کا اعلان شہر کے بیشتر محلوں میں منادی کے ذریعہ کرایا گیا۔ اس پر بہت سے لوگوں نے نماز تراویح پڑھی۔
جامعیہ اشرفیہ لاہور کی طرف سے اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ آج مطلع بالکل صاف تھا، اس لیے دو تین آدمیوں کی گواہی پر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں رؤیت ہلال کے مسئلہ پر مولانا اشرف علی تھانوی کا حسب ذیل فتویٰ پیش کیا گیا جو بہشتی زیور جلد ۳ ص ۶ پر درج ہے، اگر آسمان بالکل صاف ہو تو دو چار آدمیوں کے کہنے اور گواہی دینے سے چاند ثابت نہ ہو گا۔ چاند رمضان المبارک کا ہو، چاہے عید کا البتہ اتنی کثرت سے لوگ اپنا چاند دیکھنا بیان کریں کہ دل گواہی دینے لگے کہ سب کے سب بات بنا کر نہیں آئے، اور اتنے لوگوں کا چاند دیکھنا غلط نہیں ہو سکتا، تب چاند دیکھنا ثابت ہو گا۔ ورنہ نہیں۔ ان ہر دو فتاویٰ پر تبصرہ فرمائیں کہ ان میں سے کون سے فتویٰ صحیح ہے۔
جواب:… یہ مسئلہ ایک مشہور حدیث سے حل ہو جاتاہے، جو صحاح ستہ وغیرہ میں موجود ہے نبی اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ((صومو الرؤیته وافطر والرؤیته)) ’’یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھو۔ اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنے بند کر دو۔‘‘
اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ ((فان غم علیکم فاکملوا عدة شعبان ثلثین)) (مشکوٰۃ) ’’اگر چاند تم پر پوشیدہ ہو جائے۔ یعنی بادل یا غبار کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے، تو پھر ماہ شعبان کے تیس دن پورے کرو۔‘‘اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں کہ تمام مسلمان چاند دیکھیں تو روزہ رکھنا ضروری ہو گا۔ ورنہ نہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ بعض کا چاند دیکھنا بھی روزہ کے لیے کافی ہو گا۔ چنانچہ دوسری حدیث میں صراحت ہے، یعنی ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں ے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے لوگوں کو روزہ رکھنے کا ارشاد فرمایا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رمضان کے چاند کے لیے ایک شخص کی رؤیت بھی کافی ہے، اور یہ بھی شرط نہیں کہ مقامی لوگوں سے کوئی شخص چاند دیکھے بلکہ باہر کی رؤیت کافی ہے، اس حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ اس دن مطلع صاف تھا یا نہیں۔ لیکن ظاہر یہ امر بہت بعید ہے، کہ مطلع صاف ہونے کے باوجود اہل مدینہ سے کوئی چاند نہ دیکھ سکے، اور باہر کا اعرابی دیکھ لے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اعرابی نے چاند دیکھنے کی شہادت دی۔ مطلع صاف نہیں تھا۔ اس بنا پر بعض شارحین صاحب تحفۃ الاحوذی ((وخریه فی وکان غیماَ)) بھی لکھا ہے، یعنی بادل کی وجہ سے اہل مدینہ چاند نہ دیکھ سکے، اور اس کی تائید ابو داؤد کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
((عن الحسن فی رجل کان بمصر من الامصار فصام یوم الاثنین وشہد رجلان انہار أیا الھلال لیلة الاحد فقال لا یقضی ذلك یوم الرجل ولا اھل مصر الا ان یعلموا۔ ان اھل مصر من الامصار المسلمین قد صاموا یوم الاحد فیفوته))
’’حسن بصری سے ایک ایسے شخص کی بابت روایت ہے جو کسی شہر میں رہتا تھا اس نے سوموار کو روزہ رکھا، اور دو آدمیوں نے شہادت دی کہ انہوں نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو چاند دیکھا ہے، حسن بصری نے اُس کے متعلق فرمایا کہ اُس شخص پر یا شہر کے کسی دوسرے آدمی پر اتوار کے روزہ کی قضا نہیں ہے، یا وہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ کسی دوسرے شہر کے باشندوں نے بھی اتوار کے دن ہی روزہ رکھا تو اس صورت میں قضا دینی پڑے گی۔‘‘
حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ فرمان اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ مطلع صاف ہو ورنہ اعرابی والی مذکورہ حدیث کی مخالفت لازم آئے گی۔ کیونکہ اس میں صاف ذکر ہے کہ رمضان کے چاند کے لیے ایک شخص کی رؤیت کافی ہے، لیکن یہاں دوآدمیوں نے رؤیت چاند کی شہادت دی، باوجود اس کے حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کو معتبر نہیں سمجھا۔
اس سے ثابت ہوا کہ مطع صاف ہونے کی صورت میں ایک یا دو کی رؤیت کافی نہیں، بلکہ اتنی تعداد ضروری ہے، جس سے دل مطمئن ہو جائے کہ اتنے آدمی غلطی نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جامعہ اشرفیہ والوں کا پیش کردہ فتویٰ صحیح اور درست ہے، اور صدر انجمن حزب الاحناف کا فتویٰ حدیث اور فقہ کے خلاف ہے، جب رؤیت چاند کی صحیح شہادت نہ ملے تو ایسے مشکوک دن کا روزہ رکھنا حدیث میں منع آیا ہے۔
اس قسم کا روزہ رکھنے والے بجائے ثواب حاصل کرنے کے اُلٹے اور گناہ گار ہوں گے چنانچہ حدیث میں ہے:
((عن عمار بن یاسر قال من صام الیوم الذی یشك فیه فقد عصٰی ابا القاسم ﷺ)) (مشکوٰة)
’’یعنی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ جس شخص نے مشکوک دن کا روزہ رکھا۔ اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے:
((عن ابی هریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا تقد من احد کم رمضان بصوم یوم او یومین)) (مشکوٰة)
’’یعنی تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھے۔‘‘
(فتاویٰ اہل حدیث جلد ۲ ص ۵۵۰) (عبد اللہ امر تسری روپڑی لاہور ۳۰ رمضان ۱۳۸۱ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب