سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) پاکستان میں اختلاف مطالع کی وجہ سے کن حدود میں دو یا تین عیدیں ہو سکتی ہیں؟

  • 4063
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1256

سوال

(60) پاکستان میں اختلاف مطالع کی وجہ سے کن حدود میں دو یا تین عیدیں ہو سکتی ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پاکستان میں اختلاف مطالع کی وجہ سے کن حدود میں دو یا تین عیدیں ہو سکتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پاکستان میں شمالاً جنوباً دو یا تین حلقے قائم کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی نظر میں رہے کہ رؤیت ہلال میں خطہ استعاء سے بعد سمندر سے مقام کی بلندی و پستی اور افق کی مقامی کیفیت بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔

ف (۱):… یہ نظام شمسی اس طرح ہے کہ دنیا کے ہر حصہ میں نہ ایک وقت رؤیت ہلال ممکن ہے۔ اور نہ پیدائش قمر۔ یعنی برتھ آف دی مون۔ اس پر زمین کی محوری حرکت ہی نہیں بلکہ سورج کے گرد بیضوی دائرہ میں زمین کا اس دن محل وقوع اتنا فرق کر دیتا ہے۔ کہ ۲۴ گھنٹوں بلکہ کبھی اس سے بھی زیادہ فرق پڑ سکتا ہے۔ کسی ملک کے سیاسی حدود نظام شمسی کے حدود نہیں ہوتے۔ اس لیے کسی ملک سیاسی حدود کو ایک حلقہ قرار دے کر اس کے اندر ذیلی حلقے اگر بنائے گئے تو یہ تقسیم پیدائش قمر یا رؤیت ہلال کے لیے قطعا غلط ہو گی۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی شام کو اند کراچی میں لنکا میں۔ سومالیہ میں اور حبشہ میں نظر آ جائے۔ اور حیدر آباد سندھ۔ قاہرہ اور رفیق پورٹ میں نظر نہ آسکے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ پیدائش قمر۔ سمر قند۔ یار قند اور بخارا کے لیے ازرائے حساب ہو جائے۔ مگر ڈرمن کیپ ٹائون اور انگولا کے لیے نہ ہو۔ بلکہ سپر الیون اور مجریط کے لیے وہ پچھلے مہینے کی ۲۸ تاریخ ہی ہو۔ ایک ہی ملک سیاسی وحدت۔ ہندوستان میں دار جنگ سیلی گوری۔ اور مدارس میسور کے مابین بھی یہی اختلاف ممکن ہے۔ ہندوستان ایک ہی ملک ہے۔ لیکن سطح کی بلند و پستی کا فرق واضح ہے۔ شملہ اور آبو کا افق اور (کلکتہ و چرالو کی کا افق اپنے پھیلائو میں ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اور طول البلاد کا اتنا فرق کہ مطع ان سب مقامات کا ایک نہیں ہو سکتا۔

ف (۲):… رمضان یا عید الفطر کسی ملک یا نسل کے تہوار نہیں ہیں۔ یہ سارے عالم کے مسلمانوں کے لیے یکساں اہم ہیں۔ کوئی ملک یا چند ممالک اس کے لیے تقویم کیسے بنا سکتے ہیں۔ اور سب مل کر بھی اگر بنائیں تو وہ تقویم ساری دنیا کے لیے قابل قبول کس طرح ہو گی۔ یہ سب باتیں سوچ کر ہی کوئی تجویز پیش کی جا سکتی ہے۔ حج ایک جگہ ہوتا ہے۔ لیکن رمضان و عید تو ہر جگہ ہوتی ہیں۔ ایک کو دوسرے پر قیاس کیسے کیا جا سکتا ہے۔ حج کے لیے اگر مقامی مطلع کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کر لیا جائے۔ تو وہاں کے سب لوگ ایسے قبول بھی کر لیں گے۔ اور وہاں کے لیے صحیح بھی ہو گا لیکن وہی تاریخ و وقت انڈونیشیا اور فیجی کے لیے بھی صحیح ہو گا۔ نہ صرف ضروری نہیں، بلکہ ازروئے حساب اکثر ناممکن ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام رحمہ اللہ نے منجم کے حساب کو قابل اعتبار قرار نہیں دیا ہے۔ ملاحظہ فرما لیں فقہ کی تمام بڑی بڑی کتابوں میں یہ تصریح مذکور ہے۔ (مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی لاہور)

(الاعتصام لاہور جلد نمبر ۲۶ شمارہ نمبر ۳۲)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 164-166

محدث فتویٰ

تبصرے