السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کھانا پینا اور جماع دونوں روزہ توڑنے کے لحاظ سے ایک حکم رکھتے ہیں یا ان میں فرق ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بخاری مسلم وغیرہ میں حدیث ہے۔ ((من نسی وھو صائم فاکل وشرب فلیتم صومه فانما اطعمه اللہ وسقأہ))’’یعنی جو روزہ دار بھول کر کھا پی لے وہ اپنا روزہ پورا کرے، اُن کو اللہ نے کھلایا پلایا ہے۔‘‘
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ ((ولا قضاء علیه))اس کو دارقطنی نے روایت کیا ہے، (منتقی مع نیل الاوطار جلد ۴) یعنی بھول کر کھانے پینے والے پر قضاء نہیں۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اور نہ ہی اس صورت میں قضاء کہے۔ روزہ کے تین رکن ہیں۔ (۱) کھانا (۲) پینا (۴۳) جماع سے پرہیز۔ ان میں سے کوئی رکن فوت ہو جائے تو روزہ ٹوت جائے گا۔ مگر کھانے پینے میں بھول چوک کی صورت میں معاف ہے، جیسے حدیث بالا میں ذکر ہے، اور جمہور علماء کا یہ مذہب ہے۔ جماع کی بابت دیدہ دانستہ اور بھول چوک میں فرق کے متعلق صراحتاً کوئی روایت نہیں ؤئی۔ اس لیے اس میں اختلاف ہے کہ بھول چوک کی صورت معاف ہے یا نہیں؟ بعض علماء اس کو کھانے پینے پر قیاس کرتے ہیں۔ مگر نیل الاوطار جلد ۴ میں ہے کہ ((وقوع النسیان فی الجماع فی نہار رمضان فی غایة البعد))یعنی رمضان شریف میں دن کے وقت جماع میں بھول چوک ہونا بہت بعید ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ اول تو جماع دن میں ویسے کم ہوتا ہے، کہ دوسرے جماع کھانے پینے کی عام شئے نہیں ہے، تو ایسی قلیل الوقوع شئے جس میں کئی طرح کا اہتمام ہوتا ہے، اس میں نسیان کا ہونا قرین قیاس نہیں، تیسرے جماع کا تعلق ایک اور وجود یعنی بیوی کے ساتھ ہے، اور کھانے کا تعلق صرف اپنی ذات سے ہے، اس لیے جماع کو کھانے پرقیاس کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے، جماع کے متعلق حدیث میں کفارہ کا ذکر ہے، رسول اللہ ﷺ نے کفارہ کا حکم فرماتے وقت یہ دریافت نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام دیدہ دانستہ کیا تھا۔ یا بھول کر امام احمد رحمہ اللہ اور بعض مالکیہ نے اس سے استدلال کیا ہے، کہ اگر عمداً اور بھول چوک میں کفارہ کا فرق ہوتا تو نبی علیہ السلام اس سے دریافت فرماتے اس سے معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں کفارہ ہے… مگر استدلال کمزور ہے۔ کیونکہ حدیث میں ((ھلکت واحترقت))کا لفظ آیا ہے، یعنی جس شخص نے رمضان میں جماع کیا تھا اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ہلاک ہو گیا، جل گیا۔ ان الفاظ کا مطلب یہ ہے۔ کہ مجھ سے نافرمانی اور گناہ ہو گیا نافرمانی اور گناہ دیدہ دانستہ میں ہوتا ہے بھول چوک میں نہیں۔ پس معلوم ہوا اس نے یہ کام دیدہ دانستہ کیا تھا۔ اس لیے نبی ﷺ کو اس سے دریافت کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ نیز جماع میں بھول چوک ہونا بعید امر ہے، اس لیے آنحضرت ﷺ کو پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بہر صورت امام احمد رحمہ اللہ اور بعض مالکیہ کا اس حدیث سے جماع کے متعلق عام استدلال کرنا صحیح نہیں خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ جماع میں بھول چوک کی صورت ہو جائ۔ تو اس پر کفارہ ہے، ہاں یوں استدلال ہو سکتا ہے، کہ کھانے پینے میں بھول چوک اور دیدہ دانستہ دونوں صورتیں ایک ہی حکم میں ہیں۔ پہلی ہر دو صورت میں کفارہ ہے، کیونکہ اس میں بھول چوک بعید اور نادر الوقوع ہے، اس لیے اس کی معافی نہیں دی گئی۔ اس کی مثال ایسی ہے، جیسے نماز میں خواہ کلام دیدہ دانستہ کرے یا بھول کر نماز فاسد ہو جائے گی۔ کیونکہ نماز میں بھول کر کلام کرنا بعید امر ہے، فقہا نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ نماز کی صورت اور ہیئت اور صورت کلام کے منافی ہے یعنی نماز کی ہیئت اور شکل کلام سے روکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ روزے کی حالت میں جماع کرنے پر بہر صورت کفارہ ہے۔
(عبد اللہ امر تسری روپڑی) (فتاویٰ اہل حدیث جلد ۲ صفحہ ۵۶۹۔ ۲۹ رمضان ۱۳۸۰ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب