السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آخری جمعہ ماہ رمضان میں قبل نماز ظہر بارشادِ امام ہر نمازی اپنی سنت فجر مع فرض کے قضاء پڑھے،پھر چار رکعت ظہر پھر فرض عصر پھر فرض مغرب پھر فرض عشاء مع تین وتر قضاء کر کے پڑھے پھر چار رکعت قضاء عمری جماعت ہونے کے بعد نماز ظہر پوری پڑھے۔ یہ قضاء عمری شرعاً کیا حکم رکھتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ صورت مندرجہ صدر کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ کالعدم ثبوت بدعت ہے۔ (حررہ عبد الرحمٰن ۲۸ رمضان ۱۳۴۵ھ)
جواب محدث روپڑی:… مروجہ قضاء عمری نہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ نہ تابعین سے نہ تبع تابعین سے نہ چار اماموں سے پھر ایسی بات کے بدعت ہونے میں کیا شبہ باقی ہے۔ جنگ خندق میں چار نمازوں کی قضاء کی بابت جو حدیث ذکر کی ہے، اس میں چار نمازوں کی قضاء دی ہے، قضاء عمری سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ قضاء عمری میں خاص دن خاصہ وقت میں آٹھ رکعت یا بارہ رکعت یا سترہ رکعت پڑھی جاتی ہی۔ جن میں فاتحہ و آیت الکرسی وغیرہ پڑھی جاتی ہے، اس طرح اس حدیث کو جس میں دو رکعت پڑھ کر استغفار کا ذکر ہے اس کو بھی قضاء عمری سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ اس حدیث میں نہ آٹھ رکعت کا نہ بارہ رکعت کا نہ سترہ رکعت کا ذکر ہے، نہ رمضان کے آخری جمعہ کا ذکر ہے۔ نہ ظہر عصر کے درمیان ہونا ذکر ہے، نہ آیت الکرسی اور سورت اخلاص وغیرہ کی شرط ہے، نہ کسی خاص گناہ سے توبہ کا ذکر ہے، پس اس کو قضاء عمری کی دلیل میں پیش کرنا ایسا ہوا جیسے مرزا کہتا ہے۔ کہ میں مسیح موعود ہوں۔ بھلا اس صورت میں وہ مسیح موعود کیسے بن سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح قضاء عمری میں باتیں اپنی طرف سے بدعت ملائی گئی ہیں۔ جو بمنزلہ جھوٹی علامات کے ہیں۔ جن کا کوئی ثبوت نہیں۔
جیسے رمضان کے آخری جمعہ میں ہونا ظہر عصر کے درمیان ہونا۔ ۱۷ یا ۱۲ یا ۸ رکعت کا ہونا ان میں آیت الکرسی اور سورہ اخلاص وغیرہ کا پڑھنا یہ سب بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ حدیث میں اس طرح کی نماز کا کوئی ثبوت نہیں۔ پس یہ مردود ہے۔ حدیث میں ہے۔ ((من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد)) ’’یعنی جو دین میں ئی بات پیدا کرے، وہ مردود ہے۔‘‘
(عبد اللہ امرتسری روپڑی ضلع انبالہ) (فتاویٰ اہل حدیث روپڑی جلد ۲ صفحہ ۵۶۸۔ ۲۷ جمادی الثانی ۱۳۵۹ ھ۔ ۱۲ اگشت ۱۹۴۰ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب