سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) اگر کوئی بے روز روزہ دار کے سامنے کھائے پیئے تو اسے ثواب ہوتا ہے..کیا یہ صحیح ہے؟

  • 4041
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2526

سوال

(38) اگر کوئی بے روز روزہ دار کے سامنے کھائے پیئے تو اسے ثواب ہوتا ہے..کیا یہ صحیح ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کہتا ہے کہ اگر کوئی بے روز روزہ دار کے سامنے کھائے پیئے تو اسے ثواب ہوتا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غلط ہے، اور دین سے استہزاء ہے، اگر اسلامی حکومت ہو تو اسے سزا ملے۔ (اہل حدیث سوہدرہ ج ۶ ۲۱۔ جون ۱۹۵۴ء)

توضیح:

 محترم مفتی صاحب سائل کا سوال صحیح نہیں سمجھ سکے، دراصل اس کا مقصد یہ تھا۔ صورت مسئولہ میں روزے دار کو ثواب ہوتا ہے یا نہیں؟ مفتی صاحب نے جواب اس کھانے والے کے بارے میں دیا۔ حالانکہ اس کے سوال کی ضرورت ہی کیا ہے۔ واضح ہے کہ وہ غلط کرتا ہے، اگر رمضان ہے تو اس کا ترک روزہ کا جرم ناقابل معافی ہے، جہاں تک روزے دار کا تعلق ہے تو اس کے متعلق حدیث میں ثواب کا ذکر ہے، چنانچہ ترمذی شریف میں ہے ام عمارۃ بنت کعب انصاریہ آنحضرت سے روایت کرتی ہیں۔ ((الصائم اذا اکلت عندہ المفاطیر صلت علیه الملائکة))ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج۲ ص ۶۷ طبع اول یعنی روزے دار کے پاس جب بے روز کھائیں تو اس کے لیے فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں، اسی طرح بریدہ کی روایت ابن ماجہ میں ۱۲۶ میں ہے آنحضرت نے فرمایا بلال کے لیے اے بلال آئیے ناشتہ کریں۔ بلال کا رزق جنت میں ہے، اے بلال کیا تجھے معلوم ہے کہ جب روزے دار کے پاس کھایا جائے تو اس کی ہڈیاں تسبیح پڑھتی ہیں۔ اور فرشتے اس کے لیے مغفت کی دعا کرتے ہیں۔ اصل الفاظ یہ ہیں۔

((قال النبی ﷺ لیلال الغداء یا بلال فقال انی صائم قال ﷺ نأکل ارزقنا وفضل رزق بلال فی الجنة اشعرت یا بلال ان الصائم تسبح عظامه وتستغفر له الملائکة ما کل عندہ))

اس کا مطلب یہ ہے کہ روزے دار کے پاس کھانا غیر رمضان میں گناہ نہیں ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے کھایا صرف رمضان میں جرم ہے۔ بذا واللہ اعلم بالصواب (علی محمد سعیدی)

الحمد للہ والصلوة والسلام علی رسوله الکریم۔ اما بعد پس مخفی نہ رہے کہ رمضان کا روزہ رکھنے والی عورت کو حیض شروع ہو جانے کی صورت میں بقیہ یوم اکل و شرب وغیرہما سے پرہیز رکھنے کی ضرورت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کی مدد نہ کبری ص ۸۴ ج۱ میں ہے۔

((قلت فان کانت صائمة فحاضت فی رمضان اتدع الاکل والشرب فی قول مالك فی بقیة یومھا فقال لا قلت وھذا قول مالك قال نعم انتہیٰ))

بلکہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ حائض کے نہار میں طاہرہ ہو جانے کی صورت میں اس پر امساک کو ضروری نہیں قرار دیتے۔ مؤطا امام مالک ص ۹۰ میں ہے۔

((قال الشافعی وان قدم مسافعر فی بعض الیوم وقد کان فیه مفطر او کانت امرأته حائضا افطھرت فجا معہا لم اربأساً وکذالك ان اکلا و شربا وذالك انھما غیر صائمین انتہیٰ))

اور رد المختار میں حائض پر امساک کے عدم وجوب کی نسبت اجماع نقل کیا ہے، ((واجمعوا علی انه لا یجب (ای الامساك) علی الحائض والنفساء والمریض والمسافر انتھیٰ))

واللہ اعلم نقلہ احقر رحمت اللہ عفی عنہ زیروی (المفتی العاجر یوسف بھگیلوی عفی عنہ)

منقول از فتاویٰ مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ تلمیذ میاں صاحب مرحوم قلمی ص ۲۲

توضیح:

جو مریض روزہ نہ رکھ سکتا ہو، وہ نہ رکھے، اور جو رکھ سکتا ہو، وہ رکھے، اور انجیکشن افطار کے بعد لگوائے روزہ کی حالت میں احتیاط افضل ہے۔ واللہ اعلم۔ (الراقم علی محمد سعیدی خانیوال)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 107

محدث فتویٰ

تبصرے