سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) حاملہ یا مرضعہ روزہ ترک کر دے (ترمذی) قضا کا ذکر نہیں..الخ

  • 4027
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1515

سوال

(24) حاملہ یا مرضعہ روزہ ترک کر دے (ترمذی) قضا کا ذکر نہیں..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حاملہ یا مرضعہ روزہ ترک کر دے (ترمذی) قضا کا ذکر نہیں۔ «وَالْعَافِیَةُ عَمَّنْ سُکِتَ» نیز «ذَرُوْنِیْ فِیْمَا تَرَکْتُکُمْ» زیر نظر رکھنے ہوئے جواب عطا فرمائیں، (سائل مذکور)۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حاملہ اور مرضعہ بیمار کے حکم میں ہیں۔ اس لیے ﴿فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ کا حکم ان کو بھی شامل ہے۔ (اہل حدیث ۳۰ رمضان ۱۳۶۲ھ)

تشریح:… دودھ پلانے والی اور حمل والی عورت اگر روزہ نہ رکھ سکے تو وقت پر روزہ توڑ کر بعد کو قضا کریں۔ اس بارے میں بہت سی احادیث اور آثار وارد ہیں۔ ان میں سے کچھ دلائل پیش کے جاتے ہیں۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے۔

((عن انس بن مالك الکعبی قال قال رسول اللہ ﷺ ان اللّٰہ وضع من المسافر شططر الصلوٰة والصوم عن المسافر و عن المرضع والحبلی رواہ ابو داؤد والترمذی والنسائی وابن ماجة))

’’ان بن مالک الکعبی سے مروی ہے، انہوں نے کہا فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بے شک اللہ تعالیٰ نے مسافر سے نصف نماز اٹھایا ہے، اور روزہ مسافر اور دودھ پلانے والی اور حمل والی عورت سے اٹھایا۔‘‘

آیہ کریمہ اور حدیث میں بالتصریح یہ بات ظاہر ہے کہ مسافر کو بعد مقیم ہو جانے کے روزہ قضا کرنا چاہیے، اور جب مرضع کا عطف مسافر پر ہے، اور حبلی کا مرضع پر تب مرضعہ اور حاملہ کو بھی مسافر پر قیاس کیا جائے گا۔ موطا امام مالک میں حاملہ کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں۔

((قال مالك واھل العلم یریدون علیھا القضاء کما قال اللّٰہ عزوجل فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیّامٍ اُخرَرَ ویریدون ذلك مرضاً من الامراض مع الخوف علی ولدھا))

’’امام مالک نے کہا اور اہل علم روایت کرتے ہیں کہ حاملہ پر روزہ کی قضا ہے، جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا: پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا مسافر ہو پس گنتی ہے، دوسرے دنوں سے۔ روایت کرتے ہیں کہ وہ جمیع امراض سے ایک مرض ہے۔ ساتھ خوف کرنے اولاد اپنی سے یعنی حاملہ بمنزلہ مریض کے ہے۔‘‘

 اور مریض کو جب بعد المرض روزہ فوت شدہ کو قضا کرنا چاہیے، تو اسی حاملہ کا بھی حال ہے، تفسیر خازن میں آیت مذکورہ کے تحت میں ارقام فرماتے ہیں:

((الحامل والمرضع اذا خانتا علی ولدیھنا افطرتا وعلیھما القضاء والکفارة))

’’یعنی حمل والی اور دودھ پلانے والی جب اپنی اولاد پر خوف کریں، تو افطار کریں اور ان دونوں پر قضا اور کفارہ ہے۔‘‘

اور امام بخاری رحمہ اللہ بخاری شریف کے جز اٹھارہویں میں ارشاد فرماتے ہیں:

((وقال الحسن وابراھیم فی المرضع والحامل اذا خافتا علی انفسھا او ولدھما تفطران وتقضیان))

’’یعنی دودھ پلانے والی اور حمل والی کے بارہ میں حسن بصری اور ابراہیم نے کہا کہ وہ دونوں اگر اپنے نفس پر یا ان کی اولاد پر خوف کری۔ تو افطار کر لیں اور بعد کو وہ روزہ قضا کریں۔‘‘

اسی کے ماتحت میں ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں حسن بصری سے روایت کرتے ہیں۔

((قال المرضع اذا کافت وھی بمنزلة المریض)) (ترجمہ)

’’حسن بصری رحمۃ اللہ نے کہا دودھ پلانے والی جب خوف کرے اپنی اولاد پر تو افطار کرے، اور مسکین کو کھانا کھلا دے، اور حاملہ جب اپنے جی پر خوف کرے تو افطار کرلے، اور بعد کو قضا کر لے، اور وہ بمنزلہ مریض کے ہے۔‘‘

 اس سے بھی معلوم ہوا کہ حاملہ بمنزلہ بیمار کے ہے، اور بیمار کے بارہ میں خداوند کریم صاف فرماتا ہے۔

﴿فعدة من ایام اخر﴾

یعنی مریض اگر رمضان شریف میں روزہ نہ رکھ سکے تو پیچھے کو قضا کرے۔ علامہ شمس الحق صاحب فاضل عظیم آبادی عون المعبود شرح ابی داؤد میں حدیث مذکورۃ الصدر کے تحت بیان فرماتے ہیں۔

((الحامل والمرضع یفطر ان ابقاء علی الولد ثم یقضیان ویطعمان من اجل ان افطار ھما کان من اجل غیر انفسھما))

’’حاملہ اور مرضعہ ان کی اولاد کو باقی رکھنے کے لیے افطار کریں، پھر قضا کریں، اور کھانا کھلائیں۔ اس لیے کہ ان دونوں کا افطار غیر کے لیے ہے۔‘‘

 اب رہا وہ قول جو کہ سبل السلام میں ابن عباس اور ابن عمر سے مروی ہے کہ:

((الحامل والمرجع انھما یفطر ان وَلا قضَاء))

’’حامل اور مرضعہ کے بارہ میں عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمر نے فرمایا کہ وہ دونوں افطار کریں۔ اور ان پر قضا نہیں ہے۔‘‘

 سو جواب اس کا یہ ہے کہ آیت قرآنی اور حدیث نبوی ﷺ رہتے ہوئے قول صحابی ہمارے لیے حجت نہیں ہے۔

الخ (راقم محمد عزت اللہ غفرلہ اللہ از جمال گنج۹ (فتاویٰ ثنائیہ جلد ۱ ص ۴۰۶) (۲۱۸ جمادی الثانی ۳۶ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

 

جلد 06 ص 101-103

محدث فتویٰ

تبصرے