السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکا ۲۴ برس کا جس پر ایک ماہ کا روزہ باقی تھا انتقال کر گیا، اب کیا کیا جاوے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لڑکا اگر بیماری ہی میں مر گیا ہے، تو روزے معاف ہیں، اگر اچھا ہو کر اس نے روزے نہیں رکھے تو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں فدیۃ طعام مسکین۔ حالت شیر خورانی میں بھی روزہ رکھنے کا حکم نہیں بعد فراغت روزہ رکھے، اگر بوجہ ضعف نہ رکھ سکے تو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ (۴ ذی الحجہ ۳۸ھ)
… یہ صحیح نہیں ہے، بعد صحت روزے ہی رکھنے ہوں گے، اور اگر قبل صحت مر جائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے۔
((قال رسول اللہ ﷺ من مات وعلیه صیام صام عنه ولیه متفق علیه))
اور ضعف کے باعث فدیہ کی دلیل بھی معلوم نہیں۔ ہاں اس کے مرنے کے بعد ولی کو کھانا کھلانے کی ایک روایت ہے، مگر وہ بھی مرفوع صحیح نہیں موقوف ہے۔
((عن نافع عن ابی عمر عن النبی ﷺ وسلم من مات وعلیه صیام شھر رمضان فلیطعم عنه مکان کل یوم مسکین)) (رواہ الترمذی وقال الصحیح انه موقوف علی ابن عمر انتٰہی مشکوٰة ص۱۷۸ جلد۱)
(ابو سعید شرف الدین) (فتاویٰ ثنائیہ جلد ۱ ص ۲۱۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب