سوال: السلام علیکم، باطل فرقوں کی فہرست بتائے. اور کیا باطل فرقے کے لوگ کافر کہلائیں گے؟ والسلام،
جواب: باطل فرقے دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو دائرہ اسلام سے خارج ہوں اور یہ عموما وہی ہوتے ہیں کہ جن کے کفر پر اہل علم کا اتفاق ہو جیسا کہ ہمارے قادیانی اور منکرین حدیث دو ایسے فرقے ہیں کہ جن کے کافر ہونے پر مسلمان اہل علم کا اتفاق ہے۔ دوسری قسم ان فرق کی جو فرق کافر نہیں بلکہ بدعتی ہیں یا فرق ضالہ یعنی گمراہ فرقے ہیں جیسا کہ اہل تشیع وغیرہ۔ ان میں تفصیل ہے اور ان کی فہرست بنانا مشکل کام ہے کیونکہ اس میں اہل علم کے مابین اختلاف بھی ہو جاتا ہے۔ ہاں کچھ اصول ضرور طے کیے جا سکتے ہیں کہ جو ان اصولوں کا پابند اور ان پر عمل پیرا نہیں ہے وہ اہل بدعت ہیں۔ ایک اہم بات جس کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں باطل فرق کی اصطلاح استعمال نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک منفی اصطلاح ہے جو مد مقابل کے بارے آپ کے دل میں ہمدردی کی بجائے نفرت کے جذبات پیدا کرتی ہے بلکہ ہمیں مدعو فرق کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے یعنی وہ فرقے جو ہماری دعوت کا میدان ہیں۔ یہ ایک مثبت اصطلاح ہے اور یہ مد مقابل کے بارے آپ کے دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ پہلی اصطلاح کے استعمال کی صورت میں آپ کا سارا زور اس کے ساتھ مناظروں اور اسے ہرانے اور شکست سے دوچار کرنے میں لگ جائے گا جو یقینا شریعت کا اصلا مقصود نہیں ہے اور دوسری اصطلاح کے صورت میں آپ کے ذہن میں یہ چیز اجاگر رہے گی کہ وہ ہمارا مدعو ہے اور میں نے اس کی اصلاح کرنی ہے یعنی یہ اصطلاح استعمال کرنے کی صورت میں آپ کی ذہنی کیفیت اس کو کنورٹ کرنے کی ہو گی نہ کہ شکست دینے کی۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم اس وقت دعوت کے میدان میں ہیں اور ہمارا اصل کام بھی دعوت ہی ہے یعنی لوگوں کو کتاب وسنت کے فکر پر لانا اور یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ہم دعوت اصطلاحات کے ساتھ دعوت کا کام نہ کریں جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مناظراتی یا جھگڑالو یا الزامی اصطلاحات کے ساتھ لوگوں کی اصلاح یا دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں جو میرے خیال میں ممکن نہیں ہے۔ کوشش کریں کہ دعوت کے میدان میں آپ ایسے الفاظ کا چناو کریں کہ آپ کا مد مقابل آپ سے شدید اختلاف اور غصے کے باوجود پگھل کر رہ جائے اور یہی آپ کی کامیابی ہے۔ کراچی کے تاجروں کے بارے معروف ہے کہ اپنے فن میں بہت ماہر ہوتے ہیں۔ ایک تاجر نے کسی دوسرے تاجر سے ادھار وصول کرنا تھا تو وہ دے نہیں رہا تھا تو وہ اسے قتل کرنے کے لیے پستول لیے اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی بعد قتل کا ارارہ رکھنے والا تاجر اپنے مقروض تاجر کے گھر سے منہ لٹکائے نکلا تو کسی نے پوچھا بھائی کیا ہوا؟ قتل بھی کیا ہے یا نہیں؟ کہنے لگا جب میں اس کے گھر داخل ہوا تو مجھ سے پوچھنے لگا؛ بھائی یہ پستول کتنے میں خریدی ہے۔ میں نے بتلایا کہ دس ہزار میں لی ہے تو بولا مجھے بیس ہزار میں دے دو۔ میں اسے بیچ آیا ہوں۔ اسے ہم جدید زبان میں کنونسنگ پاور کہتے ہیں۔ داعی میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم ہونی چاہیے کہ اسے قتل کی کی نیت سے آنے والا اس سے کنونس ہو کر اپنا پستول اسے بیچ کر واپس چلا جائے۔ میرے خیال میں کبھی کسی کو اپنے صبر و تحمل سے کنونس کرنے سے جو آپ کو خوشی حاصل ہو گی شاید وہ اسے غیض و غضب کے جذبات پر مبنی اصطلاحات سے ہرا کر کبھی بھی نہ ہو گی۔ جزاکم اللہ خیرا