سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) تین رکعت وتر، ایک تشہدسے

  • 4006
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5704

سوال

(03) تین رکعت وتر، ایک تشہدسے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تین رکعت وتر، ایک تشہدسے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تین رکعت وتر، ایک تشہدسے

رمضان المبارک ۱۳۹۰ھ کے دوسرے عشرہ میں محترم مولانا عبد الغنی صاحب امر تسری نے مجھے ایک مختصر سی تحریر دی، اور اس کا جواب لکھنے کے لیے کہا جو انہیں دنوں لکھ دیا گیا تھا۔ یہ تحریر ہمارے شہر کے ایک فاضل اہل علم کی ہے۔ جو انہوں نے کالج کے بعض طلبہ کے استفسار پر تحریر فرمائی تھی، چونکہ محترم موصوف نے اس پر دستخط نہیں فرمائے۔ اس لیے ہم نے جوابی گذارشات پر انہیں براہ راست خطاب نہیں کیا۔ اور نہ ہی اس وقت ان کے اسم گرامی کا اظہار مناسب سمجھتے ہیں۔

میرا یہ جوابی مضمون مولانا عبد الغنی صاحب نے رمضان المبارک میں ہی ان طلباء کے ذریعے موصوف کو بھیج دیا تھا۔ جنہوں نے یہ تحریر مولانا کی وساطت سے میرے پاس بھیجی تھی۔ تاحال مولانا محترم نے میری تحریر پر کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ یہ تحریر اور اس پر اپنی گذارشات افادۂ عام کے لیے ’’الاعتصام‘‘ کے ذریعہ ہدیۂ شائقین کر دوں۔

وما توفیقی الا باللہ۔ (حافظ کمیر پوری)

مصنف ابن ابی شیبہ ص۲۸۳۔۲ از آثار السنن (؎۱) میں ہے:

عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنه قال الوتر ثلث کوتر النہار صلٰوة المغرب واسنادہ صحیح وعن ابی خالدة قال سالت ابا العالیة عن الوتر فقال علمنا اصحاب محمد ﷺ او علمونا ان الوتر مثل الصلوة المغرب غیرا نانقرأ فی الثالثة فھذا وتر اللیل وھذا وتر النہار واسنادہ صحیح (آثار ص ۱۲ ج ۲)

(؎۱) آثار السنن علامہ نیموی دیوبندی کی تصنیف ہے، ۱۲

اور جن روایتوں میں لا یقعد الا فی اٰخر ھن آیا ہے۔ اس میں ابان العطاء کی خطا ہے۔ (ہامش نصب الرایہ ص۱۱۸۔۲) ابان کے سوا دوسرے تمام اس کے ساتھی یہ لفظ بیان نہیں کرتے وہ سب کے سب لا یسلم الا فی اٰخر ھن کا لفظ بیان کرتے ہیں۔ پس ابان اس لفظ لا یقعد میں منفرد ہے۔ پھر اس سے روایت کرنے والا راوی بھی منفرد ہے، باقی عیسی بن یونس۔ یزید بن زریع۔ ابو بدر بن شجاع بن الولید۔ اور مطم بن مقدم اور عبد الوہاب بن عطاء جو ابان سے زیادہ پکے راوی ہیں۔ وہ سب لا یسلم الا فی اٰخرھن کہتے ہیں۔

(۲) نیز مستدرک کے دو نسخے ہیں۔ ایک میں جہاں سے ابن حجر نے فتح الباری اور بیہقی نے نقل کیا ہے لا یقعد کا لفظ ابان کی حدیث میں ہے۔

اور دوسرے نسخے میں جنہیں ابن حجر نے درایہ میں اور عینی نے بنایہ میں اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں نقل کیا ہے، اور مرتضیٰ زبیدی نے عقود الجواہر المنیفہ اور زیلعی نے نصب الرایہ میں نقل کیا ہے، وہاں ابان کی روایت میں بھی لا یقعد نہیں بلکہ لا یسلم ہے، تو معلوم ہوتا ہے، لا یقعد سہو راوی ہے، اصل لا یسلم ہے، بہرحال جیسے مغرب کی نماز میں دو رکعت کے بعد بیٹھتے ہیں، اور سلام پھیرنے کے بغیر تیسری رکعت میں کھڑے ہونا یہی حکم ہے۔ فقط والسلام

جوابی گذارشات

نماز وتر کی تعداد اور اس کے پڑھنے کی کیفیت میں اختلاف ہے، وجہ اس اختلاف کی یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مختلف اوقات اور مختلف احوال میں مختلف طریقوں سے وتر پڑھے ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے ایک، تین، پانچ، سات، بلکہ اس سے زائد بھی ثابت ہیں۔ اسی طرح وتر پڑھنے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ یہ تمام تفصیلات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ اور صحابہ کرام تابعین عظام سے ان طریقوں پر عمل ثابت ہے۔ عام بالحدیث ان طریقوں سے جیسے چاہے، پڑھ سکتا ہے۔

لیکن مختلف اماموں کے مقلدین کے لیے بڑی الجھن ہے، وہ اسی طرح وتر پڑھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جس طرح انہیں اپنے مذہبوں کی معرفت معلوم ہوا۔ حالانکہ ائمہ کرام کے دور میں نبی علیہ السلام سے ثابت تمام طریقوں کا علم حاصل ہونے میں اتنی آسانیاں نہ تھیں۔ جس قدر محدثین کی مساعی کی بدولت بعد کے ادوار میں میسر آ گئیں۔

بنا بریں واقعہ یہ ہے کہ ائمہ مذاہب کو جس کیفیت کی روایت قابل اعتماد ذریعہ سے مل سکی۔ انہوں نے اسی پر عمل کیا اور فتویٰ دے دیا۔ اور ان کے لے مناسب بھی یہی تھا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور سنت کے متبع کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ کسی ایک طریقہ پر محدود نہ رہے۔ بلکہ آنحضرت ﷺ سے ثابت شدہ تمام طریقوں کو صحیح اور جائز تصور کرے۔

اس مختصر مگر ضروری تمہید کے بعد ہم اصل مسئلہ کی طرف آتے یں۔ اور وتر کی تعداد اور کیفیت کے متعلق کچھ باتیں تحریر کرتے ہیں۔ کتب فقہ ہدایہ وغیرہ میں مختصر اور امام مرزویٔ کی مشہور کتاب قیام اللیل میں تفصیلاً امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یوں بیان ہوا ہے:

((زعم النعمان ان الوتر ثلاث رکعات لا یجوز ان یزاد علی ذٰلک ولا ان ینقص منہ فمن اوثر بواحدة فوترہٗ فاسد والواجب علیه ان یعید الوتر فیوتر بثلاث لا یسلم الا فی اٰخرھن فان سلم فی الرکعتین بطل وترہ وزعه انه لیس للمسافر ان یوتر علی دابة لکون الوتر عندہ فریضه)) (ص۱۲۳۔ مطبوعیہ لاہور ۱۳۲۰ء)

’’یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ وتر تین رکعت ہیں۔ نہ اس سے زیادہ جائز ہیں۔ اور نہ ہی کم۔ جو شخص ایک وتر پڑھے۔ اس کا وتر فاسد اور باطل ہے، اور اس کو دوبارہ تین وتر پڑھنے واجب ہیں اور سلام صرف آخری رکعت میں ہوگا۔ اور جس نے دو رکعت پر سلام پھیر لیا تو اس کے وتر بھی باطل ہیں، اور امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ بھی ہے کہ مسافر گھوڑے وغیرہ پر وتر نہیں پڑھ سکتا۔ کیونکہ وتر ان کے نزدیک فرض ہیں، اور فرض نماز سواری پر نہیں ہوتی۔‘‘

مندرجہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ وتر امام صاحب کے نزدیک فرض ہیں، اورا ن کی تعداد بلا کم و کاست تین ہے، سلام صرف آخری رکعت میں کیا جائے۔ نیز وتر سواری پر جائز نہیں۔ ہماری نہایت ادب سے گذارش ہے کہ امام صاحب کے یہ تمام دعوے حدیث کی روشنی میں صحیح نہیں۔

امر اول: یعنی وتر کی فرضیت کے متعلق تو ان کے دونوں بڑے شاگردوں (امام ابو یوسف اور امام محمد) نے بھی ان سے اختلاف کیا۔ اور وتر کو سنت کہا ہے۔ (دیکھئے ہدایہ وغیرہ) کیونکہ احادیث صحیحہ سے وتر کا فرض اور واجب ثابت کرنا مشکل ہے، اسی طرح ان کا دوسرا دعویٰ بھی حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ وتر کی تعداد آنحضرت ﷺ کے قول و عمل سے تین سے کم یعنی ایک اور تین سے زیادہ یعنی پانچ سات وغیرہ بھی ثابت ہے، جیسا کہ سنن ابی داؤد، سنن نسائی۔ ابن ماجہ اور کتاب قیام اللیل میں حضرت ابو ایوب صحابی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:ـ

((الوتر حق علی کل مسلم فمن شاء فلیوتر بخمس ومن شاء فلیوتر بثلاث ومن شاء فلیوتر بواحدة))

’’یعنی ’’وتر‘‘ مسلمان کے لیے ضروری ہیں۔ اور پڑھنے والے کو اختیار ہے کہ پانچ، تین یا ایک جو چاہے پڑھ لے۔‘‘

اس مضمون کی متعدد حدیثیں، حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ا نہی روایات کے پیش نظر امام مروزی قیام اللیل ص۱۲۱ پر فرماتے ہیں۔

((فالعسل عندنا بھذہ الاخبار کلھا جائز وانما اختلفت لان الصلوة باللیل تطوع وتوا وغیرہ الوتر فکان النبی ﷺ تختلف صلوٰۃ باللیل وترہ علی ما ذکرنا یصلی احیانا ھکذا واحیانا ھکذا فکل ذلک جائز حسن))

’’یعنی ہمارے نزدیک ان تمام روایات پر عمل کرنا جائز ہے۔ اور اختلاف کا سبب یہ ہے۔کہ رات کی نماز وتر ہو یا غیر وتر سب نفل ہیں۔ اور حضور مختلف اوقات میں کم و بیش اور مختلف کیفیت سے پڑھتے تھے۔ اور یہ سب طریقے اور تعداد جائز اور درست ہیں۔‘‘

یہاں ایک لطیفہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ کہ حضرت ابو ایوب والی حدیث میں وتر کو حق کہا گیا ہے۔ اس کی بنا پر حنفیہ اسے وتر کے وجوب کی دلیل بناتے ہیں۔ حالانکہ حق کا معنی ہر گز واجب نہیں ہوتا۔ لیکن اسی حدیث میں پوری صراحت کے ساتھ پانچ اور ایک وتر کا ذکر بھی ہے۔ لیکن حنفیہ اس سے انکار کرتے ہیں۔ یعنی ایک غیر صریح لفظ کو دلیل بناتے ہیں۔ لیکن پوری طرح واضح اور صریح لفظ سے ثابت شدہ مسئلہ کے ماننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔

سوئم: یعنی وتر پڑھنے کی کیفیت اور طریقہ کیا ہے؟

روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی کافی وسعت ہے، اور نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے مختلف طریقوں سے وتر پڑھے ہیں۔ اور صحابہ کرام اور سلف صالحین نے ان تمام طریقوں پر عمل کیا ہے، یہ کہنا کہ سلام صرف تیسری رکعت پر ہونا چاہیے۔ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ اس کے برعکس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ دوسری رکعت پر قعدہ اور سلام کے بعد تیسری رکعت علیٰحدہ بھی پڑھی جا سکتی ہے، بلکہ متعدد اہل علم نے اسے پسندیدہ قرار دیا ہے۔

تین وتر ایک ساتھ پڑھنے کی صورت میں دوسری رکعت میں تشہد کیا جائے یا نہ؟ حنفیہ تشہد کے قائل ہیں۔ اور حنفی بزرگ کی جو تحریر مجھے دی گئی ہے، (یہ تحریر مضمون کے شروع میں درج کر دی گئی ہے) اسی مقصد اور اسی دعویٰ کے اثبات میں لکھی گئی ہے۔

صاحب تحریر نے اپنے اس دعویٰ پر جو عبارت بطور دلیل پیش کی ہے، وہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ اور کتاب ’’آثار السنن‘‘ سے نقل کی گئی ہے، اور معلوم نہیں کہ اس کا ترجمہ کیوں نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ہمارے محترم بزرگ یہ تحریر ایک عام اردو خوان کو دے رہے ہیں۔ جو عربی عبارت سمجھنے سے یقینا قاصر ہیں۔

اس عبارت کے پہلے فقرہ کا معنی یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر مغرب کی نماز کی طرح تین ہیں۔ اور دوسرے فقرے کا ترجمہ یہ ہے کہ ابو العالیہ کسی صاحب ابو خالدہ کو کہتے ہیں کہ ہمیں صحابہ نے یہ بتایا کہ وتر نماز مغرب کی طرح ہیں۔ سوائے اس کے کہ وتر کی تیسری رکعت میں سورت پڑھی جاتی ہے۔

بہتر یہ تھا کہ صاحب تحریر اپنے دعویٰ پر کسی معتبر کتاب سے آنحضرت ﷺ کا کوئی صحیح اور واضح فرمان پیش کرتے۔ مگر افسوس کہ انہوں نے جن دو کتابوں کا حوالہ دیا ہے، ان میں پہلی کتاب (مصنف ابن ابی شیبہ) کتب حدیث میں تیسرے طبقہ کی کتاب ہے، جس میں صحیح، ضعیف مرفوع، مرسل۔ منقطع۔ غریب۔ شاذ۔ منکر۔ خطا۔ صواب۔ ثابت اور غیر ثابت ہر قسم کی روایات جمع کی گئی ہیں۔ تیسرے طبقہ کے محدثین کا کام صرف یہ تھا۔ کہ بلا چھان بین اور بغیر تحقیق و تنقید تمام روایات جمع کر دی جائیں۔ا ور نقد و جرح کا کام بعد میں آنے والوں پر چھوڑ دیا جائے۔ رہی کتاب آثار السنن۔ تو یہ ہمارے ہی زمانہ کے ایک حنفی عالم کی ہے، اہل علم کو چاہیے کہ اختلافی مسائل میں ان کتابوں کا حوالہ دیں۔ جو معتبر اور مسلمہ فریقین ہوں۔

دوسری بات قابل غور یہ ہے۔ کہ مذکورہ دونوں عبارتیں بھی اپنے مفہوم میں واضح نہیں ہیں۔ پھر مدعا ثابت کرنے میں ذرہ بھر مفید نہیں۔ غالباً اسی لیے ان کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ آخر ان میں وہ کون سا لفظ ہے، جس کا ترجمہ یا مفہوم یہ ہو کہ وتروں کی دوسری رکعت میں قعدہ ضروری ہے۔

کیا یہ کہنا کہ وتر کی نماز مغرب کی طرح تین رکعت ہے۔ اس بات کا ہم معنی ہے؟ کہ دوسری رکعت میں قعدہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صدی کے نامور حنفی عالم مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب ’’تعلیق المجد‘‘ میں اسی مضمون کی ایک روایت (از ابن عمر) پر بحث کے دوران لکھا ہے، کہ اس کا تعلق وتر کی کیفیت سے نہیں۔ بلکہ وتر کی تعداد سے ہے۔ اور اس کا صحیح مطلب صرف یہ ہے کہ وتر مغرب کی طرح تین رکعت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود صاحب روایت حضرت ابن عمر وتروں کی دوسری رکعت پر سلام پھیر کر تیسری رکعت الگ پڑھا کرتے تھے۔ ص۱۴۷

اس کے برعکس ایک ثابت شدہ حدیث میں خاص وتروں کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ:

((لا تشبھوا الصلٰوة المغرب))

’’یعنی وتروں کی نماز مغرب کے مشابہ نہ کرو۔‘‘

امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ:

اس روایت کے تمام ثقہ یعنی معتبر ہیں۔ صاحب تحریر کی پیش کردہ عبارت کو اگر اس فرمان نبوی کی روشنی میں دیکھا جائے تو مطلب صاف ہے کہ وتر کی نماز ہے، تو مغرب کی طرح تین رکعت۔ لیکن اس میں درمیانی تشہد نہیں ہے، اس حدیث کی یہ توجیہہ مشہور صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:

((الوتر کصلوٰة المغرب الا انه لا تقعد فی الثانیة))

’’یعنی وتر اور مغرب میں یہ فرق ہے کہ وتر کی دوسری رکعت میں قعدہ نہیں ہے۔ (محلی ابن حزم ص۳۵ ج۳)‘‘

شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فتح الباری ج ۳ ص ۱۳۴ میں مختلف روایات میں تطبیق دیتے ہوئے یہی بات کہی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بعض روایات سے تین وتر کی کراہت معلوم ہوتی ہے، بلکہ صحیح روایات سے آنحضرت ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہ کا تین وتر پڑھنا ثابت ہے، حافظ صاحب اس تعارض کا حل یوں فرماتے ہیں کہ تین وتر مغرب کی نماز کی طرح دو تشہد کے ساتھ درست نہیں لیکن دوسری رکعت پر سلام کے بعد تیسرا علیحدہ پڑھنا یا تینوں کو ایک تشہد کے ساتھ پڑھنا مسنون اور معمول ہے، اصل الفاظ یہ ہیں:

((الجمع بین ھذا وبین ما تقدم من النھی عن التشبه صلوٰة المغرب ان یحمل النہی علی صَلٰوة الثلاث بتشھدین))

صاحب تحریر کی پیش کردہ عبارت پر مختصر گفتگو کے بعد ہم ان کے اس اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں۔ جو انہوں نے اس روایت پر کیا ہے، جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ قعدہ صرف وتروں کی آخری رکعت پر کیا جائے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ

’’یہ الفاظ ابان راوی کی خطا ہیں۔ اور حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں، کہ سلام صرف آخری رکعت پر پھیرا جائے۔ اس سے ہمارے محترم یہ نتیجہ نکالتے ہیں۔ کہ دوسری رکعت میں قعدہ کیا جائے۔ حالانکہ معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی اس بات کی تائید کرے گا، کہ آخری رکعت میں سلام پھیرنے سے یہ مفہوم کیسے نکل آیا کہ دوسری رکعت میں قعدہ ضروری ہے، پھر جہاں تک دوسری رکعت پر سلام پھیر نے کا۔ اور تیسری علیٰحدہ پڑھنے کا تعلق ہے، وہ نہ تو صرف ابن عمر رضی اللہ عنہ بلکہ آنحضرت ﷺ کے عمل سے بھی ثابت ہے، مشہور حنفی بزرگ علامہ لکھنوی امام طحاوی کے حوالہ سے یہ روایت لائے ہیں۔ کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو وتر پڑھنے کا یہی طریقہ بتایا اور کہا کہ یہ رسول اللہ کی سنت ہے۔‘‘ (التعلیق المجد: ص۱۴۵)

پھر جہاں تک دوسری رکعت میں قعدہ کا تعلق ہے۔ صاحب تحریر نے اس پر کوئی واضح بات نہیں کہی۔ صرف یہ بات کہ وتر مغرب کی طرح ہیں۔ اس مقصد کے لیے قطعاً ناکافی ہیں۔ رہی ان کی یہ بات کہ مستدرک حاکم کے نسخہ میں لَا یقعد کی بجائے لا یسلم کے الفاظ ہیں۔ یعنی دوسری رکعت میں قعدہ کی نہیں، بلکہ سلام کی نفی کی گئی ہے، پھر ان کی فن رجال کی روشنی میں دوسری روایت کو ترجیح دینے کی کوشش۔ تو ہمارے خیال میں یہ تمام باتیں صاحب تحریر کے لیے چنداں مفید نہیں کیونکہ اس سے لازم آتا ہے، کہ دوسرری رکعت میں سلام کی ممانعت ہے، حالانکہ متعدد روایات میں اس کے ثبوت موجود ہیں۔ جیسا کہ ہم علامہ لکھنوی کے حوالہ سے ذکر کر آئے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب اس مفہوم کے خلاف صریح روایت موجود ہیں۔ حتی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کود اپنے مؤطا میں لائے ہیں۔ تو پھر اس تکلف سے کیا فائدہ۔

آخر ایسی واضح بات پر مسئلہ کی بنیاد ہی کیوں رکھی جائے۔ جو صریح روایات کے خلاف اور نتائج کے اعتبار سے ناقابل تسلیم ہو۔

اب رہا اہل حدیث کا عمل کہ وہ دوسری رکعت پر سلام پھیر کر تیسری الگ تو پڑھ لیتے ہیں، لیکن ایک ساتھ تین پڑھنے کی صورت میں دوسری میں قعدہ نہیں کرتے۔ تو یہ اس لیے کہ اس صورت میں وتر نماز مغرب کے مشابہ ہو جاتے ہیں، جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، بالفاظ دیر اہل حدیث کا معمول یہ ہے کہ وہ تین یا پانچ وتر ایک ساتھ پڑھنے کی صورت میں قعدہ اور سلام کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل کی بنیاد صحیحین کا ایک واضح حدیث اور غیر مبہم دلیل ہے۔

((عن عائشة قالت کان رسول اللہ ﷺ یصلی من اللیل ثلاث عشرة رکعة یوتر من ذلك نجمس لا یجلس الا فی اٰخرھا))

’’یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کی نماز (جب) تیرہ رکعت پڑھتے تو اُن میں پانچ وتر ہوتے، جن کی صرف آخری رکعت میں بیٹھتے تھے۔ سو جب پانچ وتر میں ایک ہی قعدہ مسنون ہے، تو پھر تین میں درمیانی قعدہ کیوں؟‘‘

واضح رہے کہ یہ حدیث متفق علیہ یعنی صحیح بخاری اور مسلم کی ہے، جس کی سند پر کسی قسم کی جرح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں کتب حدیث نسائی اور قیام اللیل وغیرہ میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ حضور علیہ الصلاہ والسلام سات وتر پڑھنے کی صورت میں بھی آخری رکعت میں قعدہ فرماتے تھے۔

پھر وہ حدیث بھی قابل غور ہے، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ کہ آنحضرت ﷺ جب تین وتر پڑھتے تو صرف آخری رکعت میں بیٹھتے تھے۔ یہ حدیث مستدرک حاکم کی ہے، اور صاحب تحریر کی فنی جرح کے باوجود دوسری صحیح روایات کے مطابق ہے۔

اورسب سے آخر میں ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے آنحضرت ﷺ کا وہ شاہی فرمان درج کرتے ہیں، جس کا کچھ تذکرہ پہلے بھی ہو چکا ہے۔

((عن ابی ھریرة عن النبی ﷺ قال لا توتروا بثلاث او تروا نجمس او سبھ وَلَا تشبھوا بصلوٰة المغرب)) (دارقطنی بحواله نیل الاوطار)

’’یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تین وتر نہ پڑھو۔ پانچ یا سات پڑھو، اور مغرب کی نماز سے مشابہت نہ کرو۔‘‘

ظاہر ہے کہ تین وتر کی ممانعت صرف مغرب سے مشابہت کے سبب ہے، ویسے تو آنحضرت ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہ کا تین رکعت پڑھنا بلا اختلاف ثابت ہے، بلکہ حنفیہ کے نزدیک تو واجب ہی تین ہین۔ نہ کم نہ زیادہ رہی مغرب سے مشابہت تو اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک پانچ یا سات پڑھے جائیں۔ یا دو پر سلام اور تیسرا جدا پڑھا جائے۔ یا تین اکٹھے پڑھے جائیں۔ لیکن قعدہ اور سلام صرف تیسرے میں کیا جائے۔

الحمد للہ اہل حدیث ان تمام صورتوں کے قائل ہیں۔ لیکن حنفیہ کرام ان تینوں سے کسی بھی صورت کو جائز نہیں سمجھتے۔

خلاصلہ کلام یہ ہے کہ ہم اہل حدیث رسول اللہ ﷺ کے ہر ثابت شدہ فرمان کو مانتے ہیں۔ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہر ثابت شدہ طریقہ پر وتر پڑھ لیتے ہیں۔ اور قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں یقین رکھتے ہیں کہ:

((قد جعل اللّٰہ فی الامر سعة وعلمنا النبی ﷺ الوتر علی ھیئات متعددة فلا ملجئی الی الوقوع فی مضیق التعارض)) (نیل الاوطار ج ۲ ص۲۸۲)

’’یعنی اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں بڑی وسعت فرمائی۔ اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے قول و عمل سے وتر پڑھنے کے کئی طریقے بتائے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ احادیث کو باہم ٹکرانے اور وسعت کو تنگی میں بدلنے کی کوشش نہ کریں۔‘‘

اسی طرح اندلس کے محدث حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایۂ ناز کتاب محلیٰ جلد نمبر ۳ صفحہ ۳۳ پر فرماتے ہیں:

((ان الوتر وتہجد اللیل ینقسم الٰی ثلاثة عشر وجھا ایھا فعل اجزاہٗ))

’’یعنی وتر اور تہجد پڑھنے کے تیرہ طریقے دلائل سے ثابت ہیں جس طریقے سے ادا کر لیے جائیں۔ ٹھیک ہیں۔‘‘

تاہم ہمارے (اہل حدیث کے نزدیک راجح یہ ہے، کہ تین وتر ایک ساتھ پڑھے جائیں اور قعدہ صرف تیسری رکعت میں کیا جائے ہمارے علم و تحقیق میں تین وتر اکٹھے پڑھنے کی صورت میں دوسری رکعت میں قعدہ کے متعلق کوئی ایسی مرفوع حدیث نہیں ہے، جو سنداً صحیح اور دلالتاً صریح ہو۔

ضمناً یہ ذکر بھی آیا تھا۔ کہ حنفیہ وتر کو فرض یا واجب سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں سواری پر وتر نہیں ہوتے۔ ہم پوری ذمہ داری سے عرض کرتے ہیں کہ ان کا یہ مسئلہ بھی حدیث کے خلاف ہے کہ کتب حدیث میں بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہ نے سواری پر وتر پڑھے ہیں۔

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے شاگر امام محمد اپنے ’’موطأ‘‘ میں حضرت ابن عمر کی روایت لائے ہیں کہ وہ سواری پر وتر پڑھ لیتے تھے، مگر افسوس کہ خود ہی فرماتے ہیں کہ (حنفیہ) سواری پر وتر پڑھنا پسند نہیں کرتے۔

دیکھئے مؤطا امام محمد ص ۱۴۴۔

اس کے برعکس جماعت اہل حدیث کا زریں اصول یہ ہے کہ:

  ؎          کسی کا ہور ہے کوئی نبی کے ہو رہے ہیں ہم

فقط: حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 68-79

محدث فتویٰ

تبصرے