السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حسب ذیل علماء کرام نے تائید کی ہے
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) ابو المتین زین العابدین بڑھیٹی
(۲) مولانا محمد عفان سلہٹی صدر مدرس مدرسہ نجم الہدیٰ آمتلہ
(۳) مولانا محمد عبد المجید صدر المدرسین مدرسہ صالح ڈانگا
(۴) مولانا ابو بکر ہارونی مدرس اول مدرسہ اصلاحیہ سیما پور۔ پورنیہ
(۵) مولانا عبد الستار رحمانی مدرس مدرسہ اصلاح المسلمین۔ ٹانڈا۔
(۶) مولانا عبد التواب مدرس مدرسہ مظہر العلوم۔ پٹنہ۔
(۷) مولانا فضل حق محمدی شمس پوری مغربی دیناج پور۔
(۸) مولانا محمد اسحاق سلفی مدرس مدرسہ تنظیم المسلمین۔
(۹) مولانا محمد داؤد رازؔ خطیب بمبئی
جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب آروی صدر آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نے حسب ذیل جواب عنایت فرمایا، جوابات ثلثہ صحیح میں صرف جواب نمبر تین میں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ انگریزوں اور سکھوں کے مظالم کے استیصال کے لیے جو مرکز قائم کیا گیا تھا، اس کی جائے وقوع سرحد ہندوستان سے باہر آزاد قبائل میں تھی، اور آزاد قبائل کے علاقہ ہندوستان و افغانستان کے درمیان واقع ہے، اس علاقہ کو خراسان کہنایا تو پرلے درجے کی سادہ لوحی ہے، یا انتہائی عیاری تاکہ خراسان کے متعلق جو حدیث آئی ہے، اس کو اس علاقہ پر چسپاں کر کے عام کو اپنے دام تزویر میں پھنسایا جائے اس لیے خراسان کے ہمیشہ سلطنت ایران کا حصہ رہا ہے، اور آج بھی ہے، آزاد قبائل سے خراسان کا علاقہ بہت ہی دور ہے، اور دونوں کے درمیان افغانستان کا ملک حائل ہے۔ اللّھم احفظنا من ھذہ الکتاب کتبه عبد الوہاب آروی
مولانا ابو مسعود قمر بنارسی جنرل سیکرٹری صوبائی اہل حدیث کانفرنس صوبہ یو۔ پی نے حسب ذیل جواب عنایت فرمایا، پہلے سوال جواب میں عرض ہے کہ توحید و سنت کی تبلیغ اور خاص طور سے اس دہریت کے زمانہ میں بہت ضروری ہے، اس حدیث میں اسی کی طرف اشارہ ہے، ((بَلَّغُوْا عَنِّیْ وَلَو ایَتة)) (بخاری شریف) اس قسم کی تبلیغ انفرادی حیثیت سے کی جا سکتی ہے اور اجتماعی حیثیت سے بھی، اجتماعی تبلیغ کے لیے جو منظمہ مجلس کا صدر ہو اس لفظ امیر سے یاد نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ شرعی حیثیت سے امیر وہی ہو سکتا ہے، جو شرعی امور کو شرعی طاقت سے جاری کر سکے، جو ایسا نہیں کر سکتا۔ اس کو امیر ہی نہیں ہونا چاہیے، ورنہ وہ طبرانی کی روایت کے مطابق ملعون ہوا، جس طرح سفر کے لیے ایک عارضی امیر ہوتا ہے، اسی طرح مجلس منظمہ کے لیے صدر بنا لے تو میرے نزدیک یہ خدشہ جاتا رہے، اگر ایسا صدر یا سردار آمد و خرچ کو مجلس منتظمہ یا جماعت کے سامنے جان بوجھ کر اور بغیر کسی عذر شرعی کے نہیں پیش کرتا تو ایسے صدر یا امیر کو ضرور علیحدہ کر دینا چاہیے، ورنہ اس گناہ میں سب شریک ہوں گے، ورنہ لفظ امیر کے استعمال سے شبہات پید اہوتے ہیں، اور غلط فہمی بھی اس لیے اس سے بچنا بہتر ہے سفر کے امیر کی طرح اگر یہاں بھی امیر ہی نام رکھا جائے، اور صدر کا لفظ استعمال نہ کیا جائے ،تو بھی جائز ہے۔
۳: انگریزوں کی حکومت کے وقت زکوٰۃ و خیرات کی جو رقم بغرض ہندوستان سے باہر آزاد قبائلی علاقہ میں بھیجی جاتی تھی، وہ میرے نزدیک بے کار اور فضول تھی، اور اس کو شریعت کی رو سے اجازت نہیں تھی، جہاد فی سبیل اللہ (جو جنگ کرنے کی جائے) کے لیے بااختیار و صاحب طاقت امیر ہو، اور وہ اسلام اور مسلمانوں کی خلافت کے لیے جہاد کرے، تو اس وقت مالی امداد کرنا ہمارا فرض ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے، تو ہمیں ہر گز اپنی زکوٰۃ و خیرات کو اس باطل وہم و خیال سے بچنا چاہیے، ورنہ وہ زکوٰۃ خیرات عند اللہ مقبول نہ ہو گی، یہی شرعی حیثیت اس وقت تھی، جب ہم انگریزوں کے غلام تھے، اور اب تو ہم ہندوستانیوں میںآزاد ہیں، اور یہاں پر ہم سب ہندوستانیوں کی مشترکہ حکومت ہے، اور ایسی حالت میں تو اور بھی جائز نہیں، واللہ اعلم بالصواب۔
(راقم عاجز ابو مسعود قمر بنارسی محلہ ساہوکارہ چند وسی ضلع مراد آباد یو ۔پی)
توضیح:… جہاد صرف تلوار سے بھی نہیں ہوتا، بلکہ جہاد کا معنی کوشش کرنا ہے، زبان سے ہو یا تحریر سے ہو، یا تلوار وغیرہ سے یہ ایک لحاظ سے جہاد ہے، اور جہاد کی شیکوں پر مال زکوٰۃ عشر وغیرہ کو صرف قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے، یہ ان لوگوں کے جہاد کا نتیجہ ہے، کہ آج ہندوستان کا کچھ آزاد ہے، لہٰذا انما الاعمال بالنیات کے مطابق ادائیگی زکوٰۃ ہو جائے گی۔ (سعیدی)
مولانا اسماعیل صاحب گوجرانوالہ جو ایک مشہور اہل حدیث عالم ہین، اس وقت مغربی پاکستان میں اہل حدیث کانفرنس کے جنرل سیکرٹری ہیں، ان سے بھی خراسان کے متعلق فتویٰ طلب کیا گیا تھا، اور لکھا گیا کہ اگر کوئی اپنے خراسان کے امیر کا نائب بنا کر بلا حساب و کتاب بیت المال جمع کرے۔ تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کا انہوں نے حسب ذیل جواب دیا۔
الجواب:… مدعی نیابت دماغی مریض معلوم ہوتے ہیں، خراسان میں ؤج کل کوئی خلافت کا مداعی ہی نہیں تو نیابت کیسے ہو گی، ان علاقوں میں آج کل بے دینی روز بروز بڑھ رہی ہے، یا ہے کوئی عیار جس نے شکم پروری کے لیے عوام کو دھوکہ دینا شروع کیا، اسے ایک کوڈی بھی نہیں دینی چاہیے، تاکہ حساب کی ضرورت ہی نہ رہے، شرعاً ایسے اموال کا حساب رکھنا ضروری ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے اعمال سے حساب لیتے تھے، حضرت عمر سے لوگ حساب پوچھا کرتے تھے، اور سر محفل پوچھا کرتے تھے، ابو عبید قاسم ابن سلام قاضی ابو یوسف نے الخراج میں ایسے واقعات لکھے ہیں، محمد اسماعیل گوجرانوالہ چاہ شاہاں
نوٹ:… غلام رسول مہر نے سعید احمد شہید کے حالات میں ایک کتاب چار جلدوں میں لکھی ہے، آخیر جلدیں صفحہ نمبر ۱۱۰ پر لکھا ہے، کہ مولانا اسمٰعیل گوجرانوالہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کیونکہ اس جماعت کے آخیر زمانہ کے اکثر حالات ہمیں ان کے ذریعے معلوم ہوئے بغیر اس کے جو خط انہوں نے جواب میں لکھا اس کا دام اس شہادت کے بعد اس کی قیمت اور بڑھ جائے تو ہے تیرا اس علاقہ کے وہ بالکل قریب رہتے ہیں، اور وہاں سے جتنی واقفیت ان کو ہو گی کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتی۔ (المرسل شمس الہدیٰ۔ عبد اللہ پور ضلع سنتھال پرگنہ) (اخبار ترجمان دہلی جلد نمبر ۲، ۱۵ مئی ۱۹۶۰ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب