سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207) میرا قریباً تین لاکھ روپیہ ایک بنک میں جمع ہے۔

  • 3988
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1098

سوال

(207) میرا قریباً تین لاکھ روپیہ ایک بنک میں جمع ہے۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(نمبر۱) میرا قریباً تین لاکھ روپیہ ایک بنک میں جمع ہے، قیام مارشل لاء تک میں باقاعدہ اس کی زکوٰۃ ادا کرتا رہا، لیکن جب پاکستان میں مارشل لاء نافذ ہوا، تو کسی نے میرے خلاف اس رقم کے متعلق درخواست دائر کر دی کہ اس نے میری اتنی رقم دھوکہ سے اپنے نام جمع کرا لی ہے، اصل میں وہ اس رقم کا جائز مالک نہیں، یہ مقدمہ قریباً تین سال تک چلتا رہا، دوران مقدمہ میں میں نے زکوٰۃ ادا نہیں کی، آخر کار جولائی ۱۹۶۳ء میں میرے حق میں فیصلہ ہو گیا، اور مجھے اس رقم کا جائز مالک قرار دے دیا گیا،
اب سوال یہ ہے کہ میرے ذمے گزشتہ چار سال کی زکوٰۃ بھی ہے، یا صرف ایک سال کی جب سے مجھے اس رقم کا جائز مالک قرار دیا گیا۔
سوال نمبر ۲:… کیا زکوٰۃ کی رقم سے کچھ رقم تعمیر مسجد پر خرچ کی جا سکتی ہے؟
سوال نمبر ۳:… ایک سیدی جو نہایت ہی غریب اور مفلس ہے زکوٰۃ کی رقم سے اس کی امداد ہو سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(جواب نمبر۱) اس قسم کے مال کو مال ضماد کہتے ہیں، جو انسان کی ملک میں ہو، لیکن اس پر قبضہ نہ ہو، یعنی اس میں تصرف کی قدرت نہ ہو، جیسے صورت مسئولہ یا وہ قرض جو وصول نہیں ہوتا، ایسے اموال کے متعلق عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا فیصلہ یہ ہے کہ صرف ایک سال کی زکوٰۃ ہے، جب کہ وصول ہو ، خواہ کئی سال گزر جائیں، (ملاحظہ ہو موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مع زرقانی جلد ۲ ص ۱۰۶ وغیرہ)
جواب نمبر ۲:… مسجد چونکہ وقت ہے، اس لیے اس پر زکوٰۃ صرف نہیں ہوسکتی، اس کی تفصیل آج کے فتوے جواب (الف ب) میں ہو چکی ہے۔
جواب نمبر ۳:… احادیث شریف میں تو یہی آیا ہے، کہ اہل بیت کے لیے زکوٰۃ جائز نہیں، متاخرین علماء کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے، کہ چونکہ خمس وغیرہ سے اہل بیت کے وظیفے مقرر تھے، اس لیے ان کے لیے زکوٰۃ جائز نہ تھی۔ اب مجبوری کہ وجہ سے جائز ہو سکتی ہے، لیکن یہ فتویٰ ایک رائے ہے، اس لیے تسلی نہیں، ہاں کوئی زیادہ ہی مجبور ہو، جو اضطراری حالت پہنچ جائے، کود کما نہیں سکتا، اور بچے چھوٹے ہیں، یا کسی وجہ سے مجبور ہیں، تو ایسے حال میں گچھ گنجائش نکل سکتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت نہ ہو، اور معافی ہو جائے، لیکن پھر بھی جہاں تک پرہیز ہو سکے اچھا ہے۔ (عبد اللہ امر تسری روپڑی جامعہ اہل حدیث لاہور) (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۶ شمارہ نمبر ۲۷)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 309۔310

محدث فتویٰ

تبصرے