سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(206) بیت المال شرعی نقطہ نظر سے ۔

  • 3987
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4127

سوال

(206) بیت المال شرعی نقطہ نظر سے ۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(ا) شرعی نقطہ نگاہ سے بیت المال کا قیام کیونکر ہو سکتا ہے، اور اس کے شرائط کیا ہیں؟
(ب) کیا کسی امیر کے بغیر بیت المال بن سکتا ہے؟
(ج) بیت المال مرکز ہوتا ہے، یا بستی میں؟ بستی کا بیت المال الگ بھی ہو سکتا ہے؟
(د) کیا رائج الوقت انجمنیں اپنے خزانہ کا نام بیت المال رکھ سکتی ہیں؟
(ہ) کیا کوئی انجمن اپنے بیت المال میں ہر قسم کے صدقات، خیرات زکوٰۃ جمع کر کے اس سے کتابیں چھاپ کر ان کی تجارت کر سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بیت المال دراصل نام ہے، اسلامی خزانہ کا جس کے مختلف شعبے ہوتے ہیں، اور ہر شعبے کے مصارف جداگانہ اور الگ تھے، (جس کا قائم کرنا اور اس کے مصارف پر صرف کرنا واجب تھا، اور ہے، مثلاً
ایک شعبہ ’’بیت الخمس‘‘ کے نام کا ہوتا تھا، جس میںغنائم و رکاز کے خمس جمع ہوتے تھے۔
دوسرا شعبہ ’’بیت الصدقات‘‘ کا تھا جس میں زکوٰۃ و صدقات کے اموال جمع ہوتے تھے۔
تیسرا شعبہ ’’بیت المال‘‘ کا ’’بیت الخراج‘‘ والجزیہ والفئی‘‘ تھا۔
چوتھے شعبہ میں ’’لقطے اور لاوارث لوگوں کے ترکے‘‘ جمع ہوتے تھے۔
بیت المال کی اہمیت اور افادیت ایسی واضح اور کھلی ہوئی ہے کہ اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے، بیت المال کے قیام کے لیے اسلامی حکومت و امارت کا ہونا شرط نہیں ہے، جہاں اسلامی حکومت نہ ہو وہاں بھی بیت المال قائم ہو سکتا ہے، اس لیے صرف جماعتی نظم کا ہونا ضروری ہے، اور ظاہر ہے کہ جماعتی نظم کا وجود بغیر سردار یا صدر یا امیر یا سربراہ اور اس کی سمع و اطاعت کے نہیں ہو سکتا، اور اسلام غیر منظم زندگی کا متحمل بھی نہیں، خواہ اس نظام کو انجمن یا جمعیت کہیں یا کچھ اور یا کوئی نام نہ رکھیں۔ بہرحال وہ اپنے یہاں بیت المال میں مویشیوں کی زکوٰۃ، فطر، چرم قربانی، نفلی صدقات، لقطے اور لاوارث لوگوں کے ترکے جمع ہو سکتے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ بیت المال کے لیے کوئی خاص عمارت اور مکان متعین ہو، آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ا س کے لیے کوء مکان نہیںتھا، کیونکہ زکوٰۃ عشر اور خراج کی جو رقم آتی تھی، وہ فوراً تقسیم کر دی جاتی تھی، جمع اور محفوظ رکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں کوئی بیت المال نہیں بنوایا، بلکہ جو کچھ آیا اسی وقت لوگوں کو بانٹ دیا، ہاں ابن سعد کی بعض روایتوں سے اتنا ثابت ہوتا ہے، کہ انہوں نے بیت المال کے لیے ایک مکان خاص کر لیا تھا، لیکن وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا۔
سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المال کی عمارت کی بنیاد ڈالی، اور دارلخلافہ (مدینہ منورہ) میں اسلامی خزانہ قائم کیا، اور اس کے لیے باقاعدہ افسر اور دوسرے عملہ مقرر کیے مدینہ منورہ کے علاوہ تمام صوبوں اور اہم مقامات میں بھی بیت المال قائم کیے جا سکتے ہیں، ان مقامی و ضلی بیت المالوں کی رقوم کو ان کے مقامی مصارف میں صرف کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ مرکز میں منتقل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں یہی دستور تھا۔
رائج الوقت اسلامی انجمنیں اور جمیعتیں بلاشبہ اپنے خزانوں کا نام بیت المال رکھ سکتی ہیں ، یہ نام اسلامی حکوت کے خزانے کے لیے نصاً مخصوص نہیں ہیں، اور نہ اس پر کوئی دلیل اور قرینہ موجود ہے، پس مسلمان ایک نظم کے ماتحت جہاں کہیں ہوں، رقوم مذکورہ بالا جمع کرکے اس کا نام بیت المال رکھ سکتے ہیں، صدقات و خیرات کی رقم فقراء و مساکین و دیگر مصارف کا حق ہے، انجمن یا جمعیۃ وصول کرکے وکالۃً ان اموال کو ان کے مصارف منصوصہ میں صرف کرنے کا ذمہ دار ہے، اس رقم میں ایسی تجارت جس میں اصل رقم کے اندر نقصان و خسارہ کا ذرہ بھر بھی اندیشہ ہو قطعاً درست نہیں ہے ، خاص صدقات کی رقم سے تجارت کرنے کے بارے میں خلافت راشدہ کے زمانہ کا کوئی واقعہ نظر سے نہیں گذرا۔ ہاںحضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ امیر بصرہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو صاحبزادوں عبید اللہ اور عبد اللہ کو بطور قرض کے بیت المال کی کچھ رقم، جو غالباً جزیہ یا خمس غنائم کی تھی، دی تھی کہ اس سے تجارت کا مال خرید کر مدینہ لے جائیں، اور فروخت کرکے اصل رقم امیر المؤمنین کے حوالہ کر دیں، اورنفع خود رکھ لیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پسند نہیں کیا، پھر بعض مصاحبین کے مشورہ سے اس کو مضاربت قرار دے کر اصل رقم اور آدھا نفع بیت المال میں داخل کرا دیا اور آدھا نفع لڑکوں کو مضارب ہونے کی حیثیت سے دے دیا۔
بیت المال کی جملہ رقوم اور آمد و خرچ باقاعدہ حساب و کتاب رکھنا ضروری ہے، اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، ’’عاملین‘‘ میں سامی، جامع، محافظ، سائق، راعی، حامل، حاسب، کاتب، کیال، وزان ، عداد اور دوسرے اعوان کو داخل سمجھا ہے۔ (اخبار اہل حدیث دہلی جلد نمبر ۵ شمارہ نمبر ۱۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 306۔309

محدث فتویٰ

تبصرے