السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کے پاس بہت سا مال ہے، اور وہ قرض دار بھی ہے، اور قرض خواہ کو کسی خاص وجہ سے نہيں دیا، یا قرض خواہ نے اس کے پاس امانت رکھا ہے تو یہ شخص اس سارے مال سے زکوٰۃ ادا کرے یا قرض کا مقدار چھوڑ کر باقی اگر قابل زکوٰۃ ہو، اس سے ادا کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کل مال کی زکوٰۃ اس پر واجب نہیں، قرض کے مقدار اس سے منہا کر کے باقی اگر بقدر نصاب ہو اس کی زکوٰۃ دے، والا فلا اقناع میں ہے:
((ولا زکوٰة فیمن علیه دین یستغرق النصاب او ینقصه ولا یجد ما یقضیه به سوی النساب او مالا یستغنی عنه))
(حررہٗ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفاء اللہ عنہما)
جس شخص کے ذمہ اس قدر قرض ہو کہ نصاب کو کھا جائے یا اس سے کم کر دے، اور اس کے پاس نصاب کے سوا اور کوئی چیز نہیں کہ جس سے وہ اپنا قرض ادا کرے، یا ہے تو کوئی ایسی ضروری چیز ہے کہ جس سے اس کو چار ہ نہیں، (جیسے رہنے کا مکان اور کپڑا پہننے کا) تو اس شخص کے مال میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ (فتاویٰ غزنویہ ص ۱۱۱ جلد نمبر ۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب