السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ زید نے پانچ سو روپیہ پر عمرو کی چند بیگھ زمین رہن رکھی، اس شرط پر کہ زید خراج کے بعد دس روپیہ سال بھر کے اپنے اصل روپیہ سے خارج کرتا گیا، اور ماحصل زراعت کو وصول کرتا گیا، تاوقتیکہ ما بقی روپیہ زید کو نہ ملے، اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ پانچ سو روپیہ کی زکوٰۃ کس پر ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ روپیہ کی زکوٰۃ زید پر فرض ہے، اس لیے کہ آیت کریمہ: ﴿اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنِ الٰی قوله فَرِہَانٌ مَقْبُوْضَة﴾ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ رہن قرض ہے، اور قرض سے انتفاع جائز نہیں، موافق حدیث شریف: ((لا یغلق الرہن من صاحبه الذی رهنه له غنمنه وعلیه غرمه رواہ الشافعی والدارقطنی وقال هذا اسناد حسن متصل کذا فی المنتقیٰ))
پس زید کا یہ معاملہ رہن بوجہ اشتراط انتفاع ناجائز ہے، اور جبکہ ناجائز ہے تو زید کا روپیہ زید کے ملک میں رہا، گو زید اپنے زعم میں سمجھے کہ روپیہ میری ملک میں نہیں ہے، بناء علیہ روپیہ مذکورہ کی زکوٰۃ زید پر فرض ہے، اور اگر فرض کیا جائے، کہ رہن سے انتفاع جائز ہے، تو بھی زکوٰۃ زید ہی پر فرض ہو گی، کیونکہ معاملہ رہن قرض ہے، اور قرض دادہ شدہ روپیہ میں قرض دینے والے پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
(حررہ احمد عفی عنہ) (فتاویٰ نذیریہ ص ۴۹۷ جلد نمبر ۱) (سید محمد نذیر حسین)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب