السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین مسائل ذیل میں قبریں بلند وپختہ اور اُن پر قبے وغیرہ بنانے اور غلام ونذر ونیاز وطواف کرنا کیسا ہیں اور جو شخص ان امور کو خلاف شرع جان کر ڈہا کر درست کر دے وہ کیسا ہے آج کل سلطان عبدالعزیز ابن سعود سلمہ اللہ نے مکہ مکرمہ کے قبے گرائے ہیں کیا یہ درست ہے اور حدیث میں جو آیا ہے کہ بخد میں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں قرن الشیطان ہو گا وہ کونسا نجد ہے کیا یہی نجدی مراد ہیں یعنی سلطان ابن سعود وغیرہ یا اور کوئی ؟ بینوا توجرو!
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبر کو پختہ بنانا اور بلند کرنا اور ان پر قبہ وغیرہ بنانا شرعاً ممنوع اور حرام ہے صحیح مسلم جلد اول صفحہ ۳۱۲ جامع ترمذی جلد اول صفحہ ۱۲۵ ، مسند احمد جلد اول صفحہ ۱۳۸ میں لکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ بتوں کو توڑ دو اور تصویروں کو مٹا دیجیو اور بلند قبر کو توڑ کر درست کر دیجیو یعنی بقدر بالشت رکھو جس سے قبر کا نسان معلوم ہو مسند امام احمد کی حدیث میں یہی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گئے اور یہ سب کام کر کے آئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے سب بتوں کو توڑ دیا اور قبر دنکوڈہا کر درست کر دیا اور تصویروں کو مٹا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص پھر ایسا کام کرے یعنی بت اور تصویر اور بلند قبر وغیرہ بنائے اس نے ’’ ما انزل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ یعنی قرآن شریف کا انکار کیا صحیح مسلم جلد ،صفحہ ۳۱۲ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر کسی قسم کی بنا کرنے اور بیٹھنے اور ان کی طرف نما زپڑھنے سے منع فرمایا نیز صحیح بخاری ومسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض موت میں فرمایا اللہ تعالی یہودونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد یں بنا لیا یعنی ان پر قبے وغیرہ بنا لیے اور ان پر نمازیں پڑھنی شروع کر دی۔ دین خالص ،جلد ۲ ،صفحہ ۳۳۷۔
مؤطا امام مالک وغیرہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پرستش کی جائے اللہ تعالیٰ کا سخت غصہ ہوا اس قوم پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا دین خالص ،صفحہ ۳۳۶۔
ابو داؤد ،ترمذی ، ابن ماجہ اور نسائی میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں اور ان پر مسجدیں بنا نیوالوں اور چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ۔(مشکوٰۃ شریف ،ص ۷۱)
اور کتاب الآثار امام محمد رحمہ اللہ ص ۸۹ میں لکھا ہے کہ قبر کو چونا گچ کرنا اور اس کو لیپنا یا اس کے پاس مسجد یا نشان بنانا یا اس پر اور کوئی مکان بنانا یا پختہ کرنا مکروہ یعنی ممنوع ہے یہ قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔
اور کبیری شرح منیۃ المصلی،صفحہ ۵۵۵ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ قبر پر مکان قبہ وغیرہ بنانا مکروہ ہے غنیۃ الطالبین ،ص ۷۸۲ میں شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ قبر زمین سے اونچی صرف ایک بالشت کی جائے اور اس کو گچ کرنا مکروہ ہے ۔
اور مجالس الابرار، ص ۳۵۴ میں ہے کہ قبروں پرقبے وغیرہ بنانا مکروہ ییعنی ممنوع ہیں، فتاویٰ عالمگیر یہ جلد اول مطبوعہ ہو گلی میں لکھا ہے کہ قبر پر کسی قسم کی بنا اور مسجد وغیرہ بنانا مکروہ یعنی ممنوع ہے۔ اور قبر کے پاس وہ چیز جو سنت سے معلوم نہیں ہوئی مکروہ یعنی ممنوع ہے اور معلوم صرف یہی ہے کہ زیارت اور دعا کرنا یعنی فاتحہ پڑھنا ردالمختار اول ص ۶۰۱ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ قبر پر کسی قسم کی بنا قبہ وغیرہ بنانا مکروہ یعنی ممنوع ہے ۔
اور صحیح بخاری ومسلم شریف میں حدیث ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک کپڑا دروازے پر ڈالدیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے کھینچ کر پھاڑ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ پتھروں اور مٹی کو کپڑے پھنائیں ۔دین خالص جلد ۲،ص۳۸۰۔
اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ قبروں پر غلاف ڈالنا شریعت کے خلاف ہے اور قبر کا طواف کرنا نذرونیاز تو بحکم (ایا نعبدوایاک نستین) ودیگر آیات احادیث صحیح قطعی حرام ہیں جس میں تمام سلف وخلف ائمہ مسلمین کا اتفاق ہے ۔
فتاویٰ رشیدیہ جلد ۱ ،ص ۹۴ میں مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی مرحوم نے قبروں پر قبے روشنی فروش وغیرہ کو بدعت وناجائز لکھا ہے خصوصاً مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اور جو شخص ان امور ممنوعہ بدعیہ کو توڑ کر درست کرے وہ بڑا موحد متبع سنت پکا مسلمان ہے، اور جو اس پر کسی قسم کی نکتہ چینی کرے وہ قرآن وحدیث وتعامل صحابہ وتابعین وائمہ مجتہدین سے ناواقف ہے۔ اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے والا ہے اس کی بات کا کچھ اعتبار نہیں۔
صحیح مسلم جلد اول صفحہ ۵۱ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تم میں سے کسی منکر یعنی ناجائز امر کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے بدل دے یعنی مٹاد ے، اگر ہاتھ سے نہ طاقت ہو تو زبان سے مٹائے اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو پھر اسے دل سے برا جانے ۔ لہٰذا سلطان عبدالعزیز ملکہ وسلمہ عن کل بلاء الدنیا نے اگر قبے وغیرہ بدعات کو مٹایا ہے تو اس حدیث ونیز صحیح مسلم کی دوسری حدیث پر جو پھلے گذر ی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو توڑ کر درست کرنے کا حکم فرمایا عمل کیا ہے جو موجب ثواب عظیم ہے، جزاہ اللہ تعالیٰ فی الداین خیراً
صحیح بخاری میں غزوہ حدیبہ میں بیعت رضوان کا ذکر ہے، کہ ایک درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ لوگوں نے اس درخت کے نیچے مسجد بنا رکھی تھی اور نماز پڑھتے تھے، پھر وہ درخت یا اس کی جگہ لوگون پر مشتبہ و گئی صحیح بخاری کتاب الجہاد باب البیعۃ فی الحرب میں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ایسا اختلاف اس درخت کی جگہ میں واقع ہوا کہ آدمی بھی اس پر متفق نہ ہوئے اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی فتح الباری جلد ۴، ص ۸۶
پارہ ۱۶میں ابن سعد کی حدیث صحیح سند سے لکھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب خبر پہنچی کہ لوگ وہاں نماز پڑھتے ہیں لوگوں کو دھمکایا اور اس درخت کو کٹوا بھی دیا انتہی جس سے وہ جگہ مخفی ہو گئی، فتح الباری جلد ۳ ص ۱۰۲ میں لکھا ہے کہ اس کے کٹوانے میں حکمت یہ تھی کہ مبادا لوگ غلطی میں نہ پڑھ جائیں اور تعظیم کر کے اعتقاد نفع وضرر کا نہ کر بیٹھیں یعنی پوجنے نہ لگیں دیکھے جس درخت کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کیا اور جس کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے بیعت لی اور اللہ تعالیٰ اس سے ایمان والوں سے راضی ہو گیا اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نشتگاہ تھی اور لوگ وہاں جا کر نماز پڑھتے تھے کوئی برا فعل نہ تھا ۔
مگر تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے کہ مبادا لوگ یہاں کسی زمانہ میں اس مکان کی پوجا نہ شروع کرد یں اس میں کچھ نفع وضرر کا ہونا نہ تصور کر بیٹھیں اس لیے اس کو کٹوادیا اور جگہ مخفی کرا دی یہ ہے ، ٹھیٹ اسلام یہ ہے ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کا اظہار یہ ہے ’’ ایاك نعبدوا وایاك نستعین‘‘ پر عمل لہٰذا جو جو امور ایسے ہوں ان کو ضرور مٹا دینا چاہئے اور سلطان عبدالعزیز سعود( خلد اللہ ملکہ دعا فاہ اللہ عن الافات) نے نہ مسنون قبریں توڑیں نہ اصل مسجدیں ڈھائیں یہ بالکل جھوٹ ہے اور بہتان ہے ہمیں حجاج سے اس کی تحقیق ہو چکی ہے اور بعض اخبارات میں بھی صحیح حالات شائع ہو چکے ہیں ہاں ممکن ہے ، بعض مساجد کے کسی حصے میں لوگوں نے کچھ پاکہنڈ روپے وصول کرنے کے لیے بنا رکھا ہوا اور اس کو توڑنے میں کہیں کچھ مسجد کے حصے پر بھی غلطی سے کچھ نقصان آگیا ہو ایک ادھا واقعہ ایسا سننے میں آیا ہے اس کی تلافی ان شاء اللہ ہو گئی سلطان نے اس کا وعدہ کیا ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ جن کو لوگ قبے قبے جپ رہے ہیں کہ ڈھا دئیے یہ قبریں نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر حضرات کی پیدائش کے مکانات پردہ بھی کچھ صحیح غلط مسلط قبے بنا کر اس کے ان تابوت جیسے تعزئیے ہوتے ہیں بنا رکھے تھے ان کو لوگ چومتے چاٹتے بوسہ دیتے بعض ماتھا ٹیکتے سجدہ کرتے تھے، بعض قبے ان میں غیر مسلموں کے بھی تھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین ابو طالب عبدالمطلب ایسے ہی عرفات میں ایک منار بنا رکھا تھا جس کے چاروں طرف نماز پڑھتے تھے اور لوگ زیارت کرتے تھے، اور مجاور اس کے ذریعہ سے دام وصول کرتے تھے، غرض ایک اور نیا کعبہ بنا رکھا تھا سلطان ابن مسعود نے ایسے ایسے مکروفریب کے داموں اور خلاف شرع امور کو اٹھا دیا ہے بس بات یہ ہے اور کچھ نہیں ہاں کسی سپاہی سے اگر کچھ غلطی ہو گئی ہو تو سلطان اس سے بری الذمہ ہیں ۔
اور نجد کے متعلق جو سوال ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ سلطان عبدالعزیز خلد اللہ ملکہ وغیرہ نجد یمن اور بنی تمیم سے ہیں جن کی حدیثوں میں تعریف ہے ان کا پایہ تخت ریاض ہے ، صحیح بخاری وغیرہ میں ان کی تعریف یوں ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ لوگ یعنی بنی تمیم دجال پر بہت سخت ہوں گے اور جن کی برائی ہے ۔‘‘
وہ نجد عراق ہے ۔چنانچہ صحیح بخاری باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الفتنہ من قبل المشرق میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اللهم بارك لنا فی شامنا اللهم بارك لنا فی یمننا قالوا وفی تجدانا قال اللهم بارك لنا فی شامنا اللهم بارك لنا فی یمیننا قالوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وفی نجدنا ناظنه قال فی الثالثة هنالك الزلازل والفتن وبها یطلع قرن الشیطان انتہی»
’’حاصل یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کے لیے برکت کی دعا کی تو صحابہ نے عرض کیا ہمارے نجد کے لیے بھی دعائے برکت فرمائیے آپ نے پھر شام او ریمن کے لیے دعا کی صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر عرض کیا تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے اور شیطانی گروہ ہو گا ۔‘‘
نیز صحیح بخاری کے اسی باب میں ہے :
((عن ابیه عن النبی صلی اللہ علیه وسلم انه قام الی جنب المنبر فقال الفتنة ہٰہنا من حیث یطلع قرن الشیطن۔۔۔انتہی))
’’حاصل یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا فتنہ یہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان گروہ ظاہر ہو گا ۔‘‘
اور صحیح بخاری کے اسی باب میں یہ حدیث ان لفظوں سے بھی وارد ہے:
((عن عمر انه سمع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وهو مستقبل المشرق یقول الا ان الفتنة ہہنا من یطلع قرن الشیطان۔۔۔ انتہی))
’’حاصل یہ ہے کہ آپ نے مشرق کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا خبر دار !ص فتنہ یہی سے ظاہر ہو گا جہاں س یشیطانی گروہ ظاہر ہو گا۔‘‘
صحیح مسلم صفحہ ۳۹۴ جلد دوم میں ہے:
((قالوا نا ابن فضیل عن ابیه قال سمعت ما لم ابن عبداللہ بن عمر یقول یا اهل العراق ما اسئلکم عن الصغیرة وارکبکم الکبیرة سمعت ابی عبداللہ بن عمر یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول ان الفتنة تجئی من ہہنا وادمی بیدہ فحوالمشرق من حیث یطلع قرنا الشیطٰن وانتم یضرب بعضکم رقاب بعض ۔۔۔ الخ))
’’یعنی فضیل رضی اللہ عنہ نے کہا میں سالم بن عبداللہ کو سنا کہتے تھے اے عراق والو! تم کیسے سوال کرنے والے ہو چھوٹے سے اور مرتکب ہونے والے ہو بڑے گناہ کے میں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ نے اپنے ہاتھ کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے تھے منکر نہیں سے آئے گا جہاں سے دو گروہ شیطانی فتنہ نہیں ظاہر ہوں گے اور تم ایک دوسرے کی گردن مارتے ہو۔‘‘
اس سے بخاری کی اس حدیث کی صاف تفسیر ہو گئی کہ جس نجد سے زلزلے اور فتنے اور شیطانی گروہ ظاہر ہو گا وہ نجد عراق ہے اور اس سے بھی واضح تر طبرانی کبیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
’’اللهم بارك لنا فی صاعنا ومدنا ومکتنا ومدینتنار بارط لنا فی شامنا ویمینا فقال رجل وعراقنا قال ان مما قرنی الشیطان ویہتج الفتن وان الجفاء بالمشرق انتہی ‘‘ (کنز الاعمال فی سنن الاقوال والافعال مطبوع حید آباد رکن جلد ،ص ۲۶۴)
’’حاصل یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے صاع کے بارے میں اور شام اور یمن کے بارے میں برکت کی دعا مانگی تو ایک شخص نے عرض کیا اور ہمارے عراق کے لیے بھی فرمائیے آپ نے فرمایا کہ وہاں شیطانی گروہ اور فتنوں کا ظاہر ہونا ہے۔ اور ظلم مشرق میں ہے ۔‘‘
نیز متدرین عساکر میں حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
((قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اللهم بارك لنا فی مدینتنا اللهم بارك لنا فی شامنا اللهم بارك لنا فی یمننا فقال له رجل فالعراق فانه فیہا سیرتنا وفیہا حاجتنا فسکت ثم اعاد علیه فسکت فقال بہا یطلع قرن الشیطٰن وهناك الزلازل والفتن انتہی)) ( کنز العمال جلد ۷، ص ۱۶۴)
’’یعنی حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اور شام اور یمن کے لیے دعائے برکت فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا کہ عراق کے لے یبھی دعا کیجئے کہ اس میں ہمارا غلہ اور ہماری حاجت ہے۔ تو آپ نے سکوت فرمایا سائل نے پھر سوال کیا آپ نے پہر سکوت فرمایا پھر فرمایا کہ اس میں یعنی عراق میں شیطانی گروہ ظاہر ہو گا اور وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے۔‘‘
’’ عن ابی شیبة قال اراد عمر ان لا یدع مصر امن الامصارا لا اتاہ فقال له کعب لا قافی العراق فانه فیه تسعة اعشادالشر انتہی)) ( مصنف ابن ابی شیبة کنز العمال جلد ۷، ص۱۶۴)
’’حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں کی سیر کرنی چاہی تو کعب بن احبار رضی اللہ عنہ نے کہا آپ عراق میں مت جائیں اس لیے کہ اس میں نو حصے شر ہے۔‘‘
((وعن ابی ادریس قال قدم علینا عمر بن الخطاب الشام فقال ارید ان اتی العراق فقال له کعب الاہبار عیذك باله یا امیر المؤمنین من ذلك قال وما تکرہ من ذالك قال بہا تسعة اعشار الشروکل داعٍ عضا وعضاة الجن وهاروت وماروت وبہا یأمن ابلیس وفرح انتہی)) ( مسند ابن عساکر کنز العمال جلد ۷، ص ۱۶۵)
’’حاصل یہ ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب عراق آنے کا ارادہ کیا تو کعب احبار رضی اللہ عنہ نے کہا یا امیر المؤمنین اللہ آپ کو عراق سے محفوظ رکھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اس میں کیا خرابی ہے تو کعب نے جواب دیا کہ اس میں نو حصے شر ہے اور ہر سخت بیماری وعیب اس میں ہے اور نافرمان جن اور ہاروت وماروت ہیں اور شیطان وہاں انڈے بچے دئیے۔‘‘
بس اب تو واضح ہو گیا کہ جہاں زلزلے اور فتنے شیطانی گروہ ہو گا وہ نجد عراق ہے اور بس جیسا کہ صحیح مسلم اور طبرانی اور ابن عساکر اور ابن ابی شیبہ کی حدیثوں سے واضح ہو گیا، مزید بڑان لکھا جاتا ہے:
((قال الخطابی نجد من جهة المشرق ومن کان بالمدینة کان نجد بادیة العراق ونواحیها وهی مشرق اهل المدینة واهل النجد ما ارتفع من الارض وهو خلاف الغور فانه ما انتحفض منہا وتهامة کلہا من مکة من تہامة ۔۔۔انتہی)) ( فتح الباری، جلد۶، صفحہ ۵۴۳)
’’یعنی خطابی نے اسی بخاری کی حدیث کے تحت میں لکھا ہے نجد کس طرف ہے اور جو شخص مدینہ ہو اس کا نجد بادیہ عراق اور اس کے اطراف ہیں اور وہی مدینے والوں کا مشرق ہے اور اصل نجد کا معنی بلند زمین کا ہے جو خلاف غور کا ہے اور غور پست زمین کو کہتے ہیں اور تہامہ سب غور ہے اور مکہ بھی تہامہ ہے۔‘‘
اور مولانا احمد علی صاحب نے حاشیہ بکاری میں بھی ایسا ہی لکھا ہے اور نیز فتح الباری جلد ۶ صفحہ ۵۲۶ میں جنگ جمل اور صفین وقتل عثمان وقتال نہرواں وغیرہ کے بارے میں لکھا ہے :
’’واول ما تشاء ذلك من العراق وهی من جهة المشرق انتہی‘‘
’’یعنی ابتدا ان سب فتنوں کی عراق ہے اور وہ مدینہ سے مشرق کی طرف ہے پس اس حدیث میں اور آئندہ حدیث میں کوئی منافات نہیں بلکہ اتفاق ہے کہ فتنے مشرق یعنی نجد عراق سے اٹھائیں گے اور وہی زلزلے ہوں گے اور وہیں شیطانی گروہ ہو گا ۔
چنانچہ خارجی، رافضی، معتزلی، ناجی وغیرہ جمیع فرق ضالہ نہیں سے ظاہر ہوئے کیوں نہ وہ جب نو حصے شہر عراق میں ہے اور ایک حصہ ساری دنیا میں تو پھر اس سے بڑھ کر فتنہ خیز زمین اور کون سی ہو سکتی ہے ۔
یہ ممکن ہی نہیں چہ جائیکہ نجد یمن کے لیے تو آپ نے دعا فرمائی ہے اور فرمایا ہے ’’ الایمان والحکمة یمانیة ‘‘ یعنی کامل ایمان اور حکمت دین یمن والوں کا ہے۔ سبحان اللہ اسی کا آج ظہور ہو رہا ہے کہ مکہ مکرمہ میں دین کا ڈنکا بج رہا ہے اور غیر شرع امور مٹائے جا رہے ہیں۔ اہل اسلام کو سلطان ابن سعود اور ان کے لشکر کو برا نہ کہنا چاہئے، وہ سچے مسلم بت شکن ہیں۔ جو لوگ غیر مسلموں کے بہکانے جھوٹی خبریں اڑا کر مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کرے اور ان کو اسلام کی محبت عطا کرے۔ آمین ثم آمین!
(راقم ابو سعید محمد شرف الدین عفی عنہ مدرس مدرسہ میاں صاحب مرحوم دہلوی)
جواب:موافق احادیث صحیح واقوال ائمہ کے ہے یعنی قبور کو پختہ اور ایک بالشت سے زیادہ بلند بنانا اور ان پر قبے بنانا ان کا طواف کرنا ان پر اعتکاف وچلہ کشی کرنا ان پر برائے قبر چراغ جلانا وغیرہ امور خلاف سنت ہیں و طریقہ سلف صالحین کے مخالف اور خلاف شرع کا مٹانا امر شرعی ہے۔
اس کا فاعل عند اللہ مثاب وماجور ہو گا سلطان عبدالعزیز ادام اللہ سطوتہ نے شریف حسین ستمگار وعذار کو لپیا کیا ہے۔ جس کی غدایت پر تمام فرق مسلمانان ہند متفق ہیں۔ چنانچہ تعزیرات شرع کے اجراء میں سعی وسرگرمی فرمانا ان کی صالحیت کی دلیل ہے، لہٰذا ان کو سب کرنا فسق ہے۔ حدیث شریف میں ہے ، سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر اور دوسری حدیث میں ’’ المسلم من سلم المسلمون من یدہ ولسانہ ‘‘ وارد ہے رہا یہ ہے کہ وہ نجد ہیں تو مخالفین پر لازم ہے کہ وہ ان کا ان جدیوں میں ہونا ثابت کریں جس کے حق میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی میں تامل فرمانے میں استا د حضرت مولانا حاجی احمد علی صاحب محدث سہارنپوری رحمہ اللہ جو کہ استادی مولانا حاجی احمد علی صاحب صدر المدرس فتح پوری کے استاد ہیں بخاری شریف کے حاشیہ میں ظاہر فرماتے ہیں کہ اہل نجد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دعا اس لیے نہیں فرمائی کہ اس وقت تک وہ لوگ اہل کفر ہے، رہا زلازل وفتن کے ظہور کا معاملہ سو اس کے متعلق مراد ہیں حدیث شریف خوب جانتے ہیں کہ وہ نجد کے اس حصہ کے بابت ہے جو کہ مشرق مدینہ طیبہ ہے اور وہ ارض عراق ہے اور اس کے نواحی اور ارض عراق کا مشرق اگر مخالفین سلطان مذکور کی بنو تمیمیت پر غور فرمائیں تو شاہد ان کو ان کے صلاحیت کا تازمانہ دجال پتا چل جائے یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی اولاد ہم اشد امتی علی الدجال کے صحیح صداق ہوں گے۔ فقط
قبریں بلند بنا نا اور پختہ کرنا اور غلاف چڑھانا یہ سب ممنوعات سے ہیں۔ شارع سے کہیں اس کی اباحث ثابت نہیں مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے پختہ بنانے سے اور بیٹھنے سے قبروں پر عمارت قبر پر بنانے سے منع فرمایا۔ نذر، طواف کرنا قبروں کا سخت ممنوعات سے ہیں۔ نذر اور طواف عبادۃ ہے ، غیر اللہ کی عبادت ناجائز ہے یہ نجدی اس حدیث کے ضمن میں جس میں یہ ہے کہ نجد میں زلزلے ہوں گے اور فتنے ہوں گے کبھی داخل نہیں ہو سکتے، اس لیے کہ مسلمانوں کو جو اللہ اور رسول کی طرف سے معیار سچائی اور اہل سنت والجماعت ہونے کا بنایا گیا ہے وہی ہے جس کو متعدد حدیثوں میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے دریافت کیا کہ فرقہ ناجیہ، یعنی اللہ کے نزدیک اچھا کونسا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ’’ ما انا علیہ واصحابہ‘‘ جس طریقے پر ہوں اور میرے صحابہ ) یہ نہایت صحیح معیار ہے آج گمراہ فرقوں کو صرف اسی معیار کی وجہ سے پہچان سکتے ہیں۔
ان نجدیوں کا کوئی عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ رضی اللہ عنہم کے خلاف نہیں ہے ، مذہبی اعتقادات اور عملیات کے بارے میں یہ نجدی وہی ہیں عقائد اور عملیات ہیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہونا ثابت ہے۔( فقط وحید حسین مدرسہ امینیہ دہلی)
الجواب صواب: بندہ ضیاء الحق عفی عنہ مدرسہ امینہ دہلی
الجواب حق: محمد شفیع عفی عنہ مدرس مدرسہ مولوی عبدالرب صاحب دہلی
بیشک اہل نجد سنی مسلمان ہیں۔ اور جملہ عقائد وعملیات شرعیہ ان کے شریعت حقہ و دین محمدی کے مطابق وموافق ہیں اور جو حدیث اہل نجد کی مذمت میں بیان کی جاتی ہے جس کے الفاظ:
’’هناک الزلازل والفتن ومن حیث یطلع قرن الشیطان‘‘
ہے ۔اس سے مراد اہل نجد عراق ہیں نہ اہل نجد تہامہ ہی یمن سے اور موجودہ نجدی غازیاں اسلام ساکنان نجد تہامہ ہیں جو علاقہ یمن سے ہے چنانچہ نجد عراق کی صراحت حدیث مسند احمد سے ظاہر ہے :
((عن ابن عمر رضی اللہ عنه قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بشیر بیدہ یوم العراق ہا ان الفتنة ہہناها ان لفتنة ہنا ثلث مرأت من حیث یطلع قرن الشیطان)) ( رواہ احمد فی مسندہ جلد ۲، صفحہ۱۴۳)
یہ حدیث صریح دلالت کرتی ہے کہ جہاں سے قرن شیطان طلوع ہو گا، وہ نجد عراق ہے ، نہ نجد تہامہ جو علاقہ یمن سے ہے۔ چنانچہ اہل عراق ہی سے وقوع قتل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہوا اور عراق ہی میں ہوں نہیں، امام حسین شہید کیے گئے وغیر ہ پس موجودہ نجدیاں غازیاں اسلام کو مصداق حدیث ٹھہرانا جہالت ہے جہالت ہے جہالت فقط کتبہ ابو محمد عبدالجبار مدرس مدرسہ حمیدیہ عربیہ دہلی
حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صدر جمعیۃ العلماء مدرس مدرسہ امینیہ کا فتویٰ:
ہوالموفق: اونچی قبریں بنانا ، قبروں کو پختہ بنانا قبروں پر گنبدا در قبے اور عمارتیں بنانا، غلاف ڈالنا، چادریں چڑھانا نذرین ماننا، طواف کرنا، سجدہ کرنا، یہ تمام امور منکرات شرعیہ میں داخل ہیں۔ شرعیت مقدمہ اسلامیہ نے ان امور سے صراحۃً منع فرمایا ہے ۔احادیث صحیح میں اس قسم کے امور کی ممانعت وارد ہے۔ جو شرک یا مفضی الی الشرک ہیں۔ حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات میں آخری وصایا میں نہایت اہتمام سے یہ ارشاد بھی فرمایا:
((لعن اللہ الیہود ولنصاریٰ اتخذو قبورانبیاءهم مساجد))
’’یعنی خدا لعنت کرے یہودونصاریٰ پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔‘‘
اور کتب حدیث میں وہ حدیثیں جن میں حضور نے قبروں پر عمارت ( گنبد، قبہ) بنانے اور چراغ جلانے سے منع فرمایا کثرت سے موجود ہیں، فقہ حنفی میں صراحۃً یہ مسئلہ مذکور ہے۔ کہ قبر کہ پختہ نہ بتایا جائے اور نہ اس پر کوئی عمارت بنائی جائے اور صحابہ کرام ائمہ مجتہدین سلف صالحین کا طرز عمل اسی کے موافق تھا۔ قیرونِ اولیٰ میں اس کی کوئی سند موجود نہیں کہ قبروں پر قبے بنائے جاتے تھے یا قبروں کی کوئی ایسی تعظیم کی جاتی تھی جو اب کچھ زمانہ سے مروج ہے نذر اور طواف اور سجدہ تو عبادات ہیں، اور غیر اللہ کے لیے عبادت کی نیست سے ان افعال کو کرنا تو یقیناًشرک ہے اور نیت عبادت نہ بھی ہوتاہم حرام ہیں۔ کوئی تردد نہیں، سلطان ابن سعود نے قبے ڈہا دئیے تو ان کے نزدیک چونکہ قبے بنانا ناجائز اور منکر شرعی تھا اس لیے انہوں نے جب ارشاد نبی’’ من رای منکم منکراً‘‘ الحدیث اس کا ازلاہ کر دیا معترضین اگر زیادہ سے زیادہ زور لگا کر بعض متاخرین کے قول سے اس کی اباحت پیش کر دیں تاہم حدیث صریح اور تصریحات سلف کے مقابلے میں اور تو یہ اقوال قابل التفات نہ ہو گئے دوسرے یہ کہ پھر بھی ابن سعود کو سب وشتم کرنا اور ہدف ملامت بنانا جائز نہیں ہو گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان ہے سباب المسلم فسوق (بخاری) نجد یا اس کا کوئی حصہ اگر موضوع زلازل وفتن ہو اور حضور نے اس میں سے قرن شیطان کے نکلنے کی خبر بھی دی تھی تاہم اس سے یہ استدلال کس طرح صحیح ہو سکتا کہ تمام نجدی اس کے مصداق ہیں تو کیا نجد میں آج تک کوئی صالح ودیندار نہیں ہوا سب اسی حدیث کے موافق قرن الشیطان میں داخل ہیں معاذ اللہ اور جب کہ ایسا نہیں تو لا محالہ اہل نجد کے اعمال اور اقوال ہی اس امر کے لیے معیار ہوں گے کہ وہ اس حدیث کے اندر داخل ہیں یا نہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا نہیں چاہیے کہ اب نسعود نجدی ہیں یا یمنی حجازی ہیں یا شامی بلکہ ان کے اعمال وعقائد واقوال کو دیکھنا چاہیے اور اس کے موافق ان کے بارے میں رائے قائم کرنی چاہئے ہمیں جہاں تک معلوم ہوا ہے ابن سعود کے عقائد اور اعمال میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو ان کو قابل الزام قرار دے صرف نجدی ہونے سے ان پر ملامت کی بوچھار کرنا اہل دین کا کام نہیں واللہ اعلم!
الجواب صحیح: بندہ احمد سعید واعظ دہلوی
جواب صحیح ہے محمد میاں عفی عنہ مدرس حسین بخش دہلی
الجواب صحیح: شفاعت اللہ عفی عنہ مدرس مدرسہ حسین بخش دہلی
حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب صدیقی کا فتویٰ:
جناب مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کے جوابات بالکل صحیح درست ہیں جو امور استفاء میں درج ہیں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً ان کی ممانعت فرمائی ہے جو بالتفصیل احادیث صحیحہ میں موجود ہیں سلف صالح سیدنا امام ابو حنفیہ اور بقیہ ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ نے ان تمام منکرات کو بالاتفاق حرام قرار دیا ہے اور یہ ہی اہل السنت والجماعت کا مسلک ہے جس حدیث شریف میں نجد کے بارے میں ہناک الزلازل والفتن وبہا مطلع قرن الشیطان وارد ہے اس کے متعلق چند امور واضح کر دینے ضروری ہیں۔
(۱)۔ائمہ لغت نے تصریح کی التتجد ماارتفع الارض والغور ما انخفف منہا زمین کے ہر بلند حصہ کو نجد اور پست حصہ کو غور کہتے ہیں۔
(۲)۔صحیح بخاری کی حدیث ہے :
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کے پاس کھڑے ہو کر مشرق کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ الفتنة ہما الفتنة ہهنا من حیث یطلع قرن الشیطٰن فتنه‘‘ اس جگہ سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔
(۳)۔مدینہ منورہ کی سمت مشرق میں عراق اور خلیج فارس کے ساحل دائیں جزیرہ العرب کا نقشہ دیکھو، طلوع قرن الشیطان کا پہلا مصداق آج سے چالیس سال قبل والی زنجیرین کا حکومت برطانیہ سے معاہدہ تھا اور دوسرا مصداق عراق پر برطانیہ کی حکم برداری ہے ستر جس نے ویل العرب من شرقداقترب کی تصدیق کرتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جزیرہ العرب کے متعلق آخری وصیت اور مرکز اسلام کو غیر مسلم اثرات سے پاک رہنے کی خصوصیت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے ۔ واللہ اعلم!
(۴)۔احادیث میں عموماً کسی حصہ زمین کی مذمت یا تعریف اس سر زمین کے باشندوں کے عملی یا اعتقادی حالت کے لحاظ سے وارد ہے اگر ان کی حالت میں تبدیلی واقع ہو جائے تو اس زمین کی صفت بھی تبدیل ہو جائے گی اگر یہ کہا جائے کہ نجد میں مسیلمہ کذاب جھوٹا نبی پیدا ہوا اس وجہ سے اہل نجد سے تا قیام قیامت کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی ان پر سب وشتم لعن طعن آج بھی افضل عبادت ہے جب کہ خدا کے افضل سے اس سرزمین میں ایک متنفس بھی ایسا نہیں جو خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو وجہ معلوم ہونی چاہئے کہ اس ۔۔۔نبوت کے مدعی کے سبب سے اہل یمن اس لعت کے مستحق کیوں نہیں ہیں حالانکہ وہ یمن کا باشندہ تھا اور اس المنافقین عبداللہ بن ابی کعب الاشرف اور راس یہود کے باعث جو خدا اور اس کے رسول کے سخت ترین دشمن تھے فضائل مدینہ منورہ پر حرف کیوں نہ آیا اور ابو جہل وابو طالب کے ناپاک وجود نے مکہ مکرمہ کی بزرگی میں فرق کیوں نہ ڈالا اور پھر کیا وجہ ہے کہ غلام احمد قادیانی کا وجود ہندوستان کے تمام سنیوں کو خصوصاً پنجاب صحیح میں لفظ نجد حزب الاحناف کو ملعون اور مطرود کیوں نہ قرار دے ، پس واضح ہو ا کہ جن احادیث صحیحہ میں لفظ نجد کے ساتھ مذمت آتی ہے اس کا صحیح مصداق اہل نجد اس وقت تھے جب کہ ان کا کفر اسلام سے اور شرک توحید سے مبدل نہیں ہوا تھا اک یا چند افراد کی غلط کاری کی پاداش میں پوری قوم کو نسلاً بعد نسل مورد الزام اور مجرم قرار دینا اسلامی تعلیم کے لحاظ سے کسی طرح بھی درست نہیں مختصراً تحریراً ہے ، تفصیل کا یہ مقوع نہیں ۔
ہذا ما ۔۔۔واللہ اعلم وعلمہنہ اتم
الجواب صحیح: نور الحسن عفی عنہ مدرس مدرسہ حسین بخش دہلی
صحیح الجواب مح اسحاق عفی عنہ دہلی
مطبوعہ فتاویٰ علماء کرام
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب