سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(161) اسماء الٰہی کی حقیقت

  • 3944
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1287

سوال

(161) اسماء الٰہی کی حقیقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک جگہ تفسیر فتح البیان میں الحمد کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں؟ اسماء اللہ تو حد باعتبار الغایات التی ہی افعال دون المبادی التی ہی انفعالات ‘‘ اس کی پوری تشریح بیان کریں ،یہ علم کلام کا مثلاً ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مثلا اللہ تعالیٰ کو رحمن رحیم کہا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ خدا رحمت سے موصوف ہے اور رحمت کے معنی رقت قلب کے ہیں۔تو لازم آیا کہ خدا تعالیٰ کے لیے قلب ہوا اور قلب گوشت کا ایک لوتھڑا ہے تو معاذ اللہ خدا بھی ایسا ہی ہو گا لیکن یہ خرابی اس صورت میں لازم آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کو باعتبار مبداء مصدری معنی) کے رحمن ورحیم کہا جائے اگر باعتبار غایت اور نتیجہ کے کہا جائے تو پھر کوئی اعتراض نہیں رقت قلب کی غایت اور نتیجہ احسان ہے یعنی جب کسی کی بابت انسان کا دل نرم ہوتا ہے، تو اس کے ساتھ احسان کرتا ہے ، تو گویا خدا تعالیٰ کو رحمن رحیم کہنے کے یہ معنی ہوئے کہ خدا اپنے بندوں سے احسان کرتا ہے یہ معنی ہیں فتح البیان کی عبارت کے کہ خدا کے نام بااعتبار غایت کے لیے جاتے ہیں نہ باعتبار مبداء کے اس کی زیادہ تفصیل ہم نے آپ کے شاگرد مولوی عطاء اللہ کے رسالہ الاہتداء کی تقریظ میں کی ہے جو نہایت مفید ہے۔ ( مولوی عطاء اللہ فرید کوٹکپورہ بڑی مسجد اہلحدیث ۔فتاویٰ اہلحدیث روپڑی جلد اول، صفحہ ۱۸۷)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 356

محدث فتویٰ

تبصرے