السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا آدم علیہ السلام بوجہ خطا کرنے کے آسمان سے اتارے گئے تھے یا زمین پر کسی باغ میں تھے۔( ابو سعید عبدالرحیم متعلم شمسیہ عربیہ ویروال ۲۸ فروری ۱۹۳۶ء
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشکوٰۃ میں حدیث ہے کہ میدانِ محشر میں اولین وآخرین جب آدم علیہ السلام کے پاس اگر شفاعت کی درخواست کریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھوالئے۔ تو آدم علیہ السلام عذر کریں گے کہ میرے ہی گناہ نے تو تمہیں جنت سے نکالا ہے تو اب میں دخول جنت کے لیے کس طرح سفارش کر سکتا ہوں، یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آدم علیہ السلام اسی جنت میں تھے جس میں اہل ایمان جانے والے ہیں۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿ولکم فی الارض مستقرٌ﴾
یعنی جنت سے اترنے کا حکم دے کر فرمایا کہ تمہارا زمین ٹھکانا ہے یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آدم علیہ السلام اسی جنت میں تھے اگر پہلے ہی سے زمین پر ہوتے تو یوں کہتے:
’’ولکم فی موضع آخر مستقرٌ‘‘
’’یعنی تمہارا ٹھکانا اب دوسری جگہ ہے۔‘‘
اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اسی جنت میں تھے معتزلہ ایک گمراہ فرقہ گزرا ہے اس کا خیال ہے کہ آدم علیہ السلام جس جنت میں تھے وہ زمین پر کوئی باغ تھا اور اب نیچریوں مرزائیوں کا بھی یہی خیال ہے۔ (عبداللہ امرتسری ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ مطابق ۲۸ فروری۱۹۳۶ء فتاویٰ روپڑی: جلد اول، صفحہ۱۶۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب