سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(126) ڈرانا نہ ڈرانا برابر ہے تو کافروں کو وعظ بیکار ہے

  • 3908
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1187

سوال

(126) ڈرانا نہ ڈرانا برابر ہے تو کافروں کو وعظ بیکار ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْہِمْ ءَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یَؤْمِنُوْنَ﴾

’’ یعنی کافروں کو ڈرانا نہ ڈرانا برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘

اس کے آگے ہے :

﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَ عَلٰی سَمْعِہِمْ وَ عَلیٰٓ اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةً وَّ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾

’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے او ران کے لیے عذاب دردناک ہے ۔‘‘

اس سے ظاہر ہے کہ زمین وآسمان کا ٹل جانا ممکن ہے مگر ان کا ایمان لانا ناممکن ہے مگر تاریخ بتارہی ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے کہ وہ سب منکرین حضور پر ایمان لے آتے ہیں جب یہ مسلمہ امر ہے کہ تمام اہل مکہ اور مدینہ حضور پر ایمان لے آئے تو پھر ختم الصلہ علی قلوبہم کا کیا معنی ہے ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ختم کے معنی ہمیشہ کے واسطے مسدود کر دینا منقطع کر دینا کہاں سے نکالے گئے ،قرآن مجید میں ختم کے مشتقات مختلف مقامات میں استعمال ہوئے ہیں۔ مگر ایک جگہ بھی اس معنوں میں استعمال نہیں ہوئے تفسیر القرآن بالقرآن کے اصول پر جب اس آیت ’’اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ ‘‘ کو ہم’’ وسیق الذین کفروا الی جہنم زمرا‘‘ کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ قیامت کے روز جب جہنم کے چوکیدار جہنمیوں سے دریافت کریں گے کہ کیا تمہارے پاس رسول نہیں آیا تھا تو ’’ الیوم نختم‘‘ کے قول کے خلاف نظر آرہے ہیں ۔علاوہ ازیں ’’ نختم علی قبلک یطبع علی قبلک ‘‘ بھی قرآن مجید میں ہے جس سے ثابت ہوا کہ طبع اور ختم مترادف الفاظ ہیں پھر ختم کے معنی ہمیشہ کے لیے مسدود کرنا کہاں سے نکالے گئے۔ ( سید حسنات احمد ،عابد منزل ببلی ماراں دہلی ۱۲ جولائی ۱۹۴۰ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کا حل اختصار کے ساتھ ہم عرض کرتے ہیں۔ تفصیل دیگر علماء پر چھوڑتے ہیں سائل نے مابعد کی آیات دیکھی ہیں ۔ ماقبل کی نہیں دیکھی اس سے قبل خدا فرماتا ہے۔’ ’ ہدی للمتقین ‘‘ یعنی قرآن مجید پرہیزگاروں کیلیے ہدایت ہے پرہیزگاروں سے مراد یہاں مراد یہاں مراد وہ ہیں جن کا خاتمہ پرہیزگاری پر ہونے والا ہے ، کیونکہ اعتبار خاتمہ کا ہے پہلے خواہ کوئی حالت ہو۔ اگر ساری عمر پرہیزگاری میں گزری ہو اور مرنے کے قریب مرتد ہو گیا ہو تو اس کی پہلی پرہیزگاری فائدہ نہیں دے سکتی۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِه فَیَمُتْ وَهُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْن) (پارہ ۲ رکوع:۱۱)

’’جو تم سے اپنے دین سے پھر جائے پس اسی حالت کفر میں مرجائے تو ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں حبط ہو گئے اور یہ لوگ ہمیشہ جہنم میں رہنے والے ہیں۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ پہلے خواہ مدت دینداری اور پرہیزگاری میں گزر جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اسی طرح اگر پہلے کفر کی حالت ہو اور اخیر میں تائب ہو جائے تو اس کے متعلق بھی خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَاُوْلٰٓئِكَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا﴾(پارہ ۹،رکوع۴)

’’خدا تعالیٰ ان لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

پس جب مدار خاتمہ پر ہوا اور اس آیت سے وہی مراد ہوئے جن کا خاتمہ پرہیزگاری پر ہونے والا ہے تو ’’ ان الذین کفروا‘‘ سے مراد بھی وہی کافر ہوں گے جن کا خاتمہ کفر پر ہونے والا ہے جو خدا کے ہاں ابلیس کی طرح ازلی شقی ہیں ، پس ان کے حق میں ختم سے مراد یہی ہو گا کہ ان کا راستہ ہمیشہ کے لیے مسدود ہے اور ختم کے معنی ہمیشہ ایک نہیں ہوتے بلکہ جیسا مقام ہے ویسے ہوتے ہیں یہاں چونکہ ارشاد ہے کہ ان لوگون کو ڈرانا نہ ڈرانا یکساں ہے یہ ایمان لائیں گے، اس لیے یہاں یہی مراد ہو گی، کہ ان کے لیے ہدایت کا راستہ مسدود ہے اور یہ ازلی شقی ہیں، پسی اب کسی قسم کا اعتراض نہیں رہا۔ کیونکہ اگر مکہ والے یا دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے ہدایت کا رستہ مسدود نہیں نہیں ہوا اور وہ ازلی شقی ہو کر ’’ ان الذین کفروا الایة‘‘ کے تحت داخل نہ تھے بلکہ ہدی للمتقین کے تحت تھے پس ان کو ہدایت ہونی ضروری تھی۔

بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’ ان الذین کفروا‘‘ سے ابوجہل وغیرہ خاص کافر مراد ہیں اور ’’ ان الذین کفروا‘‘ میں موصول کی تعریف عہد خارجی کی قسم سے ہے چنانچہ بیضاوی وغیرہ میں اس طرح لکھا ہے پس اس صورت میں بھی کوئی جھگڑا نہیں رہتا، کیونکہ اگر مکہ مدینے والے ایمان لائے ہیں، تو خاص لوگ جو اس آیت سے مراد ہیں جیسے ابو جہل وغیرہ ان کو ایمان نصیب نہیں ہوا بلکہ وہ کفر کی حالت میں رخصت ہو گئے پس آیت اپنی جگہ ٹھیک رہی اور ختم کے معنی بھی یہی ہوئے کہ ان کے لیے ہدایت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے مسدود ہے خدا تعالیٰ اس حالت سے بچائے۔ آمین ثم آمین!

(عبداللہ امرتسری روپڑی ۱۲ جمادی الثانی ۱۳۵۹ھ فتاویٰ روپڑی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 312

محدث فتویٰ

تبصرے