سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(116) ایک شخص اہل علم ابتداً دین محمدی میں تھا، ..الخ

  • 3898
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1268

سوال

(116) ایک شخص اہل علم ابتداً دین محمدی میں تھا، ..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص اہل علم ابتداً دین محمدی میں تھا، رفتہ رفتہ چلہائے غیر مشروعہ مروبہ صوفیہ میں منہمک ہوا اور گاہے مذہب نیچری کو اور گاہے مذہب عیسائی کو ٹھیک بتاتا ہے بعضو لوگوں نے اس کو ان کے معابد میں شامل ہوتے دیکھا۔ اس کا والد کہتا ہے کہ اس کو خفقان ہے۔ اب اس شخص کا کیا حکم ہے۔ زید کہتا ہے کہ یہ شخص اگر توبہ کرے تو اس کے ساتھ سلام وکلام وشادی وغمی میں شامل ہونا درست ہے لیکن سردار اور امام کے ہوتے ہوئے اس کو امام یا سردار نہ بنانا چاہئے اور حدیث شریف اس سے نہ قبول کرنی چاہئے اگر وہ شخص نماز پڑھتا ہو اور کوئی شخص اس کی اقتدا کرے تو جائز ہے پس ایسے شخص کو سردار وغیرہ بنایا درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص ادیان باطلہ کفریہ کی صراحۃً تصویب کرے اور ساتھ اس کے ان کے معابد میں بھی شامل ہو تو وہ باتفاق اہل علم کافر ہے ایسا شخص اگرتوبہ صحیح کرے جس کے آثار علانیہ پائے جائیں تو البتہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گا اور جمیع احکام میں مشل سائر اہل اسلام کے ہو گا اس کے ساتھ سلام وکلام اور اس کی شادی غمی میں شریک ہونا اور نماز میں اس کی اقتداء کرنا وغیرہ سب کچھ جائز و درست ہو گا رہا یہ امر کہ بعد توبہ صحیح کے اس کو سردار یا ۔۔۔ہے یا نہیں سو واضح ہو کہ ہر مسلمان سرداری وامامت کی قابلیت واہلیت نہیں رکھتا ہے اس منصب جلیل کی شرعاً جو اہلیت وقابلیت رکھے، اس کو بنانا چاہیے ، رہی یہ بات کہ شخص مذکور کو حفقان یا جنون ہے یا نہیں ، سو واضح ہو کہ خفقان یا چنون امراض مشاہدہ وبدیہیہ سے ہیں اگر اس شخص میں خفقان یا جنون کے آثار وعلامات پائے جاتے ہیں تو یہ شخص مجنون یا مبتلا بحفقان قرار دیا جائے گا، ورنہ نہیں واللہ اعلم حررہ محمد عبدالحق ملتانی عفی عنہ ۔سید محمد نذیر حسین۔

توضیح الکلام: اگر شخص مذکورہ میں واقعی توبہ صحیح کے آثار پائے گئے تو التائب من الذنب کمن لازنب لہ کے مطابق تمام مؤمین ومسلمین کی طرح ہے ۔( الراقم علی محمد سعیدی خانیوال)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 286

محدث فتویٰ

تبصرے