سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(97) صاحب تذکیر الاخوان نے اپنی کتاب کے ایک باپ کے حاشیہ پر..الخ

  • 3879
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1255

سوال

(97) صاحب تذکیر الاخوان نے اپنی کتاب کے ایک باپ کے حاشیہ پر..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’صاحب تذکیر الاخوان نے اپنی کتاب کے ایک باپ کے حاشیہ پر عوارف المعارف کے حوالہ سے یہ عبارت نقل کی ہے کہ اس وقت تک کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگ اس کی نگاہ میں ایک مینگنی کی طرح بے بس نظر نہ آنے لگیں، کیا یہ عبارت صحیح ہے یا نہیں؟‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آنچہ صاحب تذکیر الاخوان نقل کردہ حق است ’’ فما ذا بعدالحق الا الضلال عبارتہ ہکذا فی الباب الثالث والستین فی ذکر شئی من البدایۃ والنہایۃ لا یتحقق صدقہ واخلاصہ الا بالشیئین متابعۃ امرا الشرع وقطع النظر عن الخلق فکل الانات علی البدیات لموضع نظرہم الی الخلق وبلغنا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیچ انہ قال لا یکمل ایمان المرء حتی یکون الناس عندہ کالا باعد انتہی ما فی العوارف لختے

’’صاحب تذکیر الاخوان نے جو عبارت نقل کی ہے درست ہے اس کا مضمون اس طرح ہے کہ وہ تریسٹھویں باب میں لکھتے ہیں ’’ آدمی کا صدق واخلاص دو چیزوں پر منحصر ہے پہلی شریعت کی اتباع اور دوسری تمام مخلوقات سے امیدیں منقطع کر لینا اور زیادہ تر آفت اسی آخری چیز ہے پیش آتی ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی آدمی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ لوگ اس کی نگاہ میں مینگنی کی طرح بے بس نظر نہ آنے لگیں۔( عوارف المعارف)

سخن در توکل افتاد، فرمود کہ اعتمادے برحق باید کر دو نظر بر ہیچ کس نہ باید داشت بعدازان برلفظ مبارک برزبان راند کہ ایمان کسے تمام نہ شود، تاہمہ مخلوق نزد ادہم چنان نمایند کہ پشک شتر، چنانکہ حضرت نظام الدین اولیاء در فوائد الفواد در جلد ثالث در مجلس ہشتم می فرامنید، پس مضمون ہر دو کتاب مذکور موافق کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم است ،چنانکہ ﴿اللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنْ الطَّیِّبٰتِ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ oہُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا ہُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔۔۔الایۃ) وقال اللہ تعالیٰ:(وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا oوَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا ) وایضا (وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہٗ مِنْ اَمْرِہِ یُسْرًا oذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنزَلَہُ اِِلَیْکُمْ ) الآیة

’’حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے فوائد الفوائد میں بالکل یہی مضمون نقل کیا ہے اور ان دونوں کتابوں کا مضمون کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے عین مطابق ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس نے تم کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا یہ اللہ ہے تمہارا پالنے والا، سو برکت والا ہے سارے جہانوں کا پالنے والا‘‘ سب تعریفیں اسی کو ہیں جو جو سارے جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے۔‘‘ اور جو اللہ سے ڈیے اللہ اس کے لیے کسادگی بنا دیتے ہیں۔‘‘ اور جو اللہ پر بھروسہ کرے اللہ اسے کافی ہے وغیرہ من الآیات۔‘‘

وہمہ مخلوقات رابہ پشک شتر تشبیہ دادہ است بنا بر عدم قدرت بر موجود بودن و معدوم شدن ایشان است باختیار خود یعنے پشک بہ سبت انسان ناچیز وحقیر محض است طورے کہ خواہدآن رابگرواند، خواہ درآب اندازد، خواہ درآتش سوزاند، خواہ زیر پابمالد وپراگندہ دریزہ ریزہ کندمے تواندہم چنان مخلوقات از عرش تا فرش باعتبار قدرت قاہرہ وسلطنت باہرہ اوقادر مطلق وقاہر برحق عاجز ولاچار است و درد جو دو بقاء فنا بے اختیارد درجلب منافع و دفع مضار بمشیت دارادہ ایزدی مقہورد مجبور سرشار۔

تیغ بگرفت بکف گفت کہ نازم این ست

سر فرد بر دم و فتم کد نیازم این ست

قال اللہ تعالیٰ:

﴿وَ اِنْ یَّمْسَسْك اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ وَ اِنْ یُّرِدْك بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾

گر مرا برد ار بند دیار بہر امتحان

کیسث کان ساعت بہ تیغ از دار بکشاید مرا

اور یہ جو تمام مخلوقات کو اونٹ کی مینگنی سے تشبیہ دی ہے یہ صرف اس بات میں ہے کہ کسی کو بھی معدوم چیز کو موجود کرنے کی یا موجود کو معدوم کرنے کی ذاتی طاقت نہیں ہس جس طرح مینگنی انسان کی بہ نسبت بالکل نا چیز اور حقیر ہے کہ جس طرح آدمی چاہے اس کو الٹ پلٹ سکتا ہے پانی میں پھینک سکتا ہے ، آگ میں ڈال سکتاہے۔ پاؤن میں مسل سکتا ہے ریزہ ریزہ کر سکتا ہے ایسے ہی تمام مخلوقات فرش سے عرش تک خداوند کی قدرت کے سامنے مجبور مقبور ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ اگر خدا تجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کو کوئی دور نہیں کر سکتا اور اگر تیرا بھلا کرنا چاہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘

’’ اعلم أنہ سبحانہ وتعالی قرر فی آخر ہذہ السورۃ أن جمیع الممکنات مستندة إلیہ وجمیع الکائنات محتاجۃ إلیہ ، والعقول والہة فیه ، والرحمة والجود والوجود فائض منہواعلم أن الشیء إما أن یکون ضارا وإما أن یکون نافعا ، وإما أن یکون لا ضارا ولا نافعا ، وہذان القسمان مشترکان فی اسم الخیر ، ولما کان الضر أمرا وجودیا لا جرم قال فیہ وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللَّہُ بِضُرٍّ ولما کان الخیر قد یکون وجودیا وقد یکون عدمیا ، لا جرم لم یذکر لفظ الإمساس فیہ بل قال وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ والآیة دالة علی أن الضر والخیر واقعان بقدرة اللَّہ تعالی وبقضاۂ فیدخل فیہ الکفر والإیمان والطاعة والعصیان والسرور والآفات والخیرات والآلام واللذات والراحات والجراحات ، فبین سبحانہ وتعالی أنہ إن قضی لأحد شرا فلا کاشف لہ إلا ہو ، وإن قضی لأحد خیرا فلا راد لفضلہ ألبتة ثم فی الآیة دقیقة أخری ، وہی أنہ تعالی رجح جانب الخیر علی جانب الشر من ثلاثة أوجہ الأول أنہ تعالی لما ذکر إمساس الضر بین أنہ لا کاشف لہ إلا هو ، وذلک یدل علی أنہ تعالی یزیل المضار ، لأن الاستثناء من النفی إثبات ، ولما ذکر الخیر لم یقل بأنہ یدفعہ بل قال إنہ لا راد لفضلہ البتة انتہی ما فی التفسیر الکبیر مختصراً

’’تفسیر کبیر میں امام رازی نے پانچویں پارہ کی اس آیت کے تحت بڑی تفصیل سے اس مضمون کو بیان کیا ہے لکھتے ہیں’’ تمام ممکنات اسی کی طرف منسوب ہے تمام کائنات اس کی محتاج ہے، رحمت، سخاوت اور وجود اسی سے ملتا ہے یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ نفع اور نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے کفرو ایمان طاعت ونافرمانی خوشی اور مصیبت خیرات اور دکھ، لذت و راحت اور زخم وبیماریاں سب اسی نفع ونقصان کی تفسیر میں اور یہ سب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

ودرنہ وہ سطر قبل ازین می نویسدان من عرف مولاہ فلوالتفت بعد ذلک الی غیرہ کان ذلک شرکا ، وہذا ہو الذی تسمیہ أصحاب القلوب بالشرک الخفی والقید السادس قولہ تعالی وَلا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّہِ ما لا یَنْفَعُکَ وَلا یَضُرُّکَ والممکن لذاتہ معدوم بالنظر إلی ذاتہ وموجود بإیجاد الحق ، وإذا کان کذلک فما سوی الحق فلا وجود لہ إلا إیجاد الحق ، وعلی ہذا التقدیر فلا نافع إلا الحق ولا ضار إلا الحق ، فکل شیء ہالک إلا وجہہ وإذا کان کذلک ، فلا حکم إلا للَّہ ولا رجوع فی الدارین إلا إلی اللَّہ ثم قال فی آخر الآیة فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذاً مِنَ الظَّالِمِینَ یعنی لو اشتغلت بطلب المنفعة والمضرة من غیر اللَّہ فأنت من الظالمین ، لأن الظلم عبارة عن وضع الشیء فی غیر موضعہ ، فإذا کان ما سوی الحق معزولا عن التصرف ، کانت إضافة التصرف إلی ما سوی الحق وضعا للشیء فی غیر موضعہ فیکون ظلما فإن قیل فطلب الشبع من الأکل والری من الشرب ہل یقدح فی ذلک الإخلاص؟قلنا لا لأن وجود الخبز وصفاتہ کلہا بإیجاد اللَّہ وتکوینہ ، وطلب الانتفاع بشیء خلقہ اللَّہ للانتفاع بہ لا یکون منافیا للرجوع بالکلیۃ إلی اللَّہ ، إلا أن شرط ہذا الإخلاص أن لا یقع بصر عقلہ علی شیء من ہذہ الموجودات إلا ویشاہد بعین عقلہ أنہا معدومة بذواتہا وموجودة بإیجاد الحق وہالکة بأنفسہا وباقیة بإبقاء الحق ، فحینئذ یری ما سوی الحق عدما محضا بحسب أنفسہا ویری نور وجودہ وفیض إحسانہ عالیا علی الکل انتہی ما فی التفسیر الکبیر من الجزء الخامس‘‘

’’اور اس سے نو دس سطر پہلے لکھتے ہیں اگر کوئی آدمی اپنے مولا کو پہچاننے کے بعد غیر کی طرف متوجہ ہو تو اہل اللہ کینزدیک ایسا آدمی مشرک ہے اور اگر کوئی آدمی اعتراض کرے کہ بھوکا روٹی کی طرف توجہ کرتا ہے پیاسا پانی کی طرف رجوع کرتا ہے تو کیا یہ مشرک ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ مشرک نہیں ہے کیونکہ روٹی یا پانی کا وجود اور اس کی سیر کرنے کی صفت سب اللہ تعالیٰ کی ایجاد وتکوین سے ہے تو ان کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف بالکلیہ توجہ کرنے کے منافی نہیں ہے۔ صرف اتنا خیال رکھنا چاہئے کہ تمام چیزیں بذات خود معدوم ہیں اور خدا تعالیٰ کی ایجاد سے موجود ہیں۔‘‘

از پشک شتر زیرا کہ ساحت جولان گاہ قہر دجلال لا یزال او ایزد متعال قابل توبہ شید المحال ازیس وسیع د فسیح است ، ہرکہ وران دشت خار خونخوار ناپیدا کنار نجاکساری اصل خود زرہ وارگردراہ تسلیم درضار اکحل الجواہر بصیرت گرواند مرد جلبیج است

شہوار یکہ منم گردرہ جولانش

آفتاب از مژہ جاروب کشد میدانش

سبحان ربك رب العزت عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین

’’جب انسان کی نگاہ یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو پھر تمام مخلوقات اس کی نگاہ میں مینگنی کی طرح ہے حقیقت نظر آتی ہیں۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 256-261

محدث فتویٰ

تبصرے