سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) جو کوئی حاکم حقیقی پروردگار کو کہ ہر بات سنتا ہے..الخ

  • 3868
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1635

سوال

(86) جو کوئی حاکم حقیقی پروردگار کو کہ ہر بات سنتا ہے..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو کوئی حاکم حقیقی پروردگار کو کہ ہر بات سنتا ہے، اور ہر چیز سے خبر رکھتا ہے ساتھ حاکم مجازی دنیا کے باین معنی تشبیہ دیوے، کہ جیسے حاکم دنیاوی سے کسی چیز کو مانگنا، اور ان سے داد چاہنا، اور استعانت کرنا بغیر وسیلہ کے نہیں ہو سکتا ہے، ویسا ہی خداوند تعالیٰ سے کہ دربار اس کا سب درباروں سے عالی ہے، بغیر وسائل کے حاجت روائی نہیں ہو سکتی ہے، اور بغیر وسیلہ کے اللہ کسی کی بات نہیں سنتا ہے، پس واسطے اس شخص کے ازروئے شرع شریف کے کیا حکم ہونا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں توسل اولیاء و اموات کی حاجت نہیں، بلا وسیلہ وہ سنتا ہے، کیونکہ حق سبحانہ خود فرماتا ہے:

﴿نَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾

’’ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘

﴿وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْہَرُوْا بِه اِِنَّه عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾

’’تم بات آہستہ کرو یا ظاہر کرو، وہ سینے کی باتیں بھی جانتا ہے۔‘‘ ۱۲

((وغیرھا من الایات الکریمة))

حدیث شریف میں وارد ہے:

((عن ابن عباس قال کنت خلف رسول اللّٰہ ﷺ یوما فقال یا غلام احفظ اللّٰہ یحفظك احفظ اللّٰہ تجدہ تجاھك واذا سألت فاسئل اللّٰہ واذا استعنت فاستعن باللّٰہ رواہ احمد والترمذی کذا فی المشکوٰة))

’’ابن عباس کہتے ہیں کہ میں آنحضرتﷺ کے پیچھے سواری پر تھا، آپ نے فرمایا: بیٹا اللہ کا خیال رکھنا، اللہ بھی تیرا خیال رکھے گا، اور جب مانگے تو اللہ سے مانگ، اور مدد کی ضرورت ہو ،تو اللہ سے طلب کر۔‘‘ ۱۲

مال علی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

((قوله اذا سألت فَاْسْئلِ اللّٰہ ای فاسئله وحدہ لان خذائن العطار یا عندہ ومفاتیح المواھب والمزا یا بیدہ وکل نعمة او نقمة دنیویة واخرویة فانھا تصل الی العبد وتند فع عنه برحمة من غیر شائبة غرض وعلة لانه الجواد المطلق والغنی الذی لا یفتقر فینبغی ان لا یرجی الا رحمته ولا یخشی الا نقمته ویلنجی عظام المھام الیه ویعتمد فی جمھور الامور علیه ولا یسآل غیرہ غیر قادر علی العطار یا والمنع النفع الضرر وجلب النفع فانھم لا یملکون لانفسھم نفعا ولا ضرا ولا یملکون موتا ولا حیاة ولا نشورا۔ انتہی ما فی المرقات لملا علی القاری۔ قال رَبُّکُمْ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ الاٰیة))

’’صرف ایک اللہ سے مانگ، کیونکہ تمام خزانے اسی کے پاس ہیں، تمام دنیاوی اور اخروی نعمتیں اسی کے قبضہ میں ہیں، وہ بغیر کسی لالچ کے بندہ پر احسان کرتا ہے، اور اس کی تکلیفیں دور کرتا ہے سو اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور اسی سے توقع رکھنی چاہیے، اور تمام کام اسی کے سپرد کرنے چاہئیں، اور اس کے علاوہ اور کسی سے کوئی توقع نہ رکھنی چاہیے، کہ کسی کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے، نہ کوئی دے سکتا ہے، نہ لے سکتا ہے، بلکہ کوئی بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں۔‘‘

کیا رحمت کاملہ اس ارحم الراحمین کی ہے، کہ طلب دعا کے واسطے بصیغہ امر بتاکید ارشاد فرماتا ہے:

((عن النعمان بن بشیر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ الدعاء ھو العبادة وفی روایة اخری الدعا منع العبادة ثم قراء قال رَبُّکُمْ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ رواہ احمد والترمذی وابو داؤد وابن ماجة))

’’آنحضرتﷺ نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے اور فرمایا: ’’پکارنا عبادت کا مغز ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ ‘‘ ۱۲

در عدم ما مستحقان کے بدیم کہ برین جان دیدین دانش شدیم

ما نبودیم وتقاضا مانہ بود لطف تو ناگفتہ رما می شنود

((عن ابی ھریرة ان رسول اللّٰہ ﷺ قال ینزل ربُّنا تَبَارَك وَتَعالیٰ کُلَّ لَیْلَة اِلٰی السَّمَاءِ الدُّنْیا حِیْنَ یَبْقیٰ ثُلْثُ اللَّیْلِ الْاٰخَرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَاسْتَجِبْ لَه مَنْ یَسْءَلْنِیْ فَاُعْطِه مَنْ یَسْتَغفِرْنِیْ فَاَغْفِرْلَه کما رواہ البخاری وغیرہ من المحدثین))

’’اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات پچھلے تیسرے حصہ میں آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کون مجھے پکارتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اس کو دوں، کون گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں اسی کو بخشوں۔‘‘ ۱۲

یعنی بخوانید مراد از من خواہید، کہ خزانہ عامرہ رحمت من مالا مال است وکرم من بخشنوہ ومال، کدام گدائے دست نیاز پیش آوردہ کہ نقد مراد برکف امیدش نہ نہادم وکدام محتاج زبان سوال کشادہ، کہ رقعہ حاجتش بتوقیع اجابت موشح نساء ختم اے غافلان مردہ دلان بشنوید ؂

بر آستان ارادت کہ سر نہاد شبے کہ لطف دوست بردیش ہزار و رنکشاد

اور حدیث شریف میں واد ہے کہ جو کوئی دعا و استعانت و سوال للہ جل شانہ کی جناب میں نہیں کرتا، تو اللہ کریم و رحیم اس سے ناخوش ہوتا ہے۔

((عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من لم یسأل اللّٰہ یغضب علیه رواہ الترمذی۔ عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لیس شئی اکرم علی اللّٰہ من الدعاء رواہ الترمذی))

’’آنحضرتﷺ نے فرمایا: جو اللہ سے نہ مانگے، اللہ اس پر ناراض ہو جاتا ہے اور فرمایا: دعاء سے بڑھ کر خدا کے نزدیک کوئی چیز بھی معزز نہیں ہے۔‘‘ ۱۲

یحبھم ویحبونہ چہ اقرار است بزیر پردہ نگر خویش را خریدار است

ارباب شریعت پر مخفی نہیں کہ بندوں کی طاعت وسیلہ ہے ظاہر میں نجات کا یعنی امتثال اوامر و اجتناب نواہی وسیلہ ہے ظاہر ہیں، اور باطن میں نظر اوپر رافت کاملہ اور رحمت شاملہ کے چاہیے۔

﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ﴾

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور برائیاں چھوڑ کر اور نیکی کر کے اس تک پہنچنے کا وسیلہ بناؤ۔‘‘

((من فعل الطاعات وترك السیئات کذا فی المدارك وغیرہ من التفاسیر ﴿وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِه لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ الاٰیة))

این طلب مابے طلب تو وادہٗ گنج احسان برہمہ بکشادہٗ

این طلب درماہم از ایجاد و تست رستن از بیداد یارب داو تست

این قدر ارشاد تو بخشیدہٗ تابدین بس عیب ما پلوشیدہٗ

قطرۂ دانش کہ بخشیدی زپیش متصل گردان بدر یا ہائے خویش

﴿کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَة اَنَّه مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓءً بِجَہَالَة ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِه وَ اَصْلَحَ فَاَنَّه غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾

’’مقرر کیا ہے تمہارے رب نے اپنے آپ پر مہربانی کرنی ، بے شک جو تم سے جہالت کی وجہ سے برے کام کرے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرے، تو بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

درد مندان گنہ را روز و شب شربتے بہتر زا استغفار نیست

آرزو مندان وصل یار را چارہ غیر از نالہائے زازا نیست

﴿قال اللّٰہ تعالٰ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا﴾

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ، جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور وہ حقیقت میں نہیں سنتے یعنی ایسا سننا بھی سے کوئی حاصل نہ ہوا۔‘‘۱۲

مباشید مانند آنانکہ گفتند شنیدیم مامثل اہل کتاب یا منافقان وھم لا یَسْمَعُوْنَ وحالانکہ ایشان نمی شنوند، شنید فی کہ بدان نفع گیرند، پس گویا کہ نمی شنوند

گو کہ می شنوم ہرچہ گفتی سعدی چہ شد کہ می شنون چون سخن نمی شنوی

﴿قال اللّٰہ تعالیٰ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُه زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ الایة﴾

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مومن وہ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔‘‘ ۱۲

چہ ہر سکے کہ در سطوت غلبہ نورانیت حق مضمحل ومقہور شدا درا پردائے ما سوی اللّٰہ نہ می ماند

ہر کہ او در بحر مستغرق شود فارغ از کشتی واز زورق شود

غرقۂ دریا بجز دریا ندید غیر دریا ہست بردے ناپدید

توزرو زی وہ بروزی واممان از سبب بگذر مسبب بین عیان

از سباب می رسد ہر خیر و شر نیست زا اسیاب وسائطر اے پسر

اصل بینددیدہ چون اکمل بود فرع بیند دیدہ چون احول بود

تفسیر بیضاوی میں تحت آیت کریمہ:

﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَدْعُو مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَا یَسْتَجِیبُ لَه اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهمْ عَنْ دُعَاءِهمْ غَافِلُوْنَ﴾

’’اور کون آدمی اس سے گمراہ تر ہے جو اللہ کے سوا کسی اور کو پکارے جو قیامت تک اس کو جواب نہ دے سکے، اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں۔‘‘

کے تحت لکھا ہے:

((لِاَنَّھُمْ امَّا جَمَادٌ وَاِمَّا عِبَادٌ مُسْخَرُوْنَ مُشْتَغِِلُوْنَ بِاَحْوَالِھِمْ۔ انتہی کلام قاضٰ البیضاوی))

’’کہ یا تو وہ جمادات ہیں، یا بندے ہیں جو اپنے حال میں مشغول ہیں۔‘‘ ۱۲

واضح ہو صاحبان دانش پر کہ کفار بھی معبودان باطلہ کو برابر خدا تعالیٰ کے کسی طرح کی قدت میں نہیں جانتے تھے، بلکہ بمجرد تشبیہ نہ تحقیق ان سے حاجت روائی چاہتے تھے، سو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس تشبیہ مجرد پر مشرک فرمایا، جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں تحت آیت: ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ کے مذکو رہے:

((تسمیة ما یعبدہ المشرکون دون اللّٰہ اندادا وما زعموا انھا تساویه فی ذاته وصفاته ولا انھا تخالفه فی افعاله لانھم لما ترکوا عبادته الی عبادتھا سموھا الھة شابھت جالھم حال من یعتقد انھا ذوات واجبة بالذات قادرة علی ان تدفع عنھم باس اللّٰہ وتمتعھم ما لم یرد اللّٰہ بھم الٰٰی اٰخر ما فی البیضاوی))

’’تفسیر بیضاوی میں تحت آیت:﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ کے تحت لکھا ہے کہ مشرکوں کے معبودوں کو اندادا (برابر) فرمایا ہے حالانکہ مشرکین کا یہ عقیدہ نہیں تھا، کہ وہ صفات و احوال میں خدا کے برابر ہیں لیکن چونکہ وہ خدا کی عبادت چھوڑ کر ان کی عبادت میں مشغول ہو گئے تھے، تو گویا ان کی حالات اس آدمی جیسی ہوئی جو یہ عقیدہ رکھے کہ وہ ذات واجب بالذت میں، وہ خدا کا عذاب روکنے اور خدا کی بند کی ہوئی نعمتوں کو عطا کر دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ‘‘ ۱۲

اور چلہ کرنا قبروں کے پاس اس نیت سے کہ بہ سبب مجاوت اہل قبور کے حاجت روائی ہماری ہو جائے گی، اور اس لیے لوگ مقبرہ بزرگان میں بامید استعانت چلہ کرتے ہیں تو اس طرح کے چلہ اور عکوف اصنام میں کہ عادت کفار کی تھی، کچھ فرق نہیں، دونوں برابر ہیں کیونکہ چلہ عبارت اسی سے ہے کہ کسی بزرگ کی قبر پر اقامت اور مجاورت و بودو باش رات دن کا اختیار کرنا چند روزہ اور یہی معنی عکوف کے ہیں، تو یہ چلہ نوع شرک ہے کہ امید نفع و شرکا اپنی حاجت براری کے لیے اعتقاد کر کے چلہ بیٹھتے ہیں قبروں کے پاس اور اسی پر حضرت آدم علیہ السلام نے الزام دیا، اپنی قوم کو، عکوف بر چیز سے مقیم بودن آوردن صلہ یعلی قولہ تعالیٰ:

((یَعْکِفُوْنَ عَلیٰ اَصْنَامِ لَھُمْ ویقال فلان عکف علی فوج حرام))

وگرد چیز سے برگشتن عکف الجوھر فی النظ کذا فی الصراح۔ الاعتکاف والعکوف الاقامة علی الشئی وبالمکان ولزومھا کذا فی مجمع البحار للشیخ العلامة ابن طاہر الفتنی قال اللّٰہِ﴿مَا ھٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْ اَنْتُمْ لَھَا عَاکِفُوْنَ﴾

’’اعتکاف کا معنی ہے بیٹھنا، کسی جگہ کو لازم پکڑ لینا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ کیا مورتیاں ہیں جن پر تم دھرنا مار کر بیٹھے ہو۔‘‘ ۱۲

ترجمہ شاہ ولی اللّٰہ والد شاہ عبد العزیز قدس سر ہما، چیست این صورتہا کہ ثما برآن مجاورت وارید ۔ا نتہی ما فی فتح الرحمن۔ توجمہ شاہ عبد القادر برادر شاہ عبد العزیز قدر سر ہما۔ یہ کیا مورتیں ہیں جن پر تم لگے بیٹھے ہو، موضع القرآن۔

((ان العلة التی نہی النبی ﷺ لا جلھا من الصلوٰة عند القبور انما ھو لئلا یتخذ ذریعة الی نوع من الشرك یا لعکوف علیھا وتعلق القلوب بہا رغبة ورھبة ومن المعلوم ان المضطر فی الدماء الذی قدر نزلت به نازلہ فید عو لا ستجلاب خیرکا الا استشفاء اولد فع شرکا کالا ستصار فی حالته فی افتنانہ بالقبروا ذرجاء الاجاجة عند ھا اعظم من حال من یؤدی الفرض عندھا فی حالته العافیة فان اکثر المصلین فی حاله العافیة لا تکاد تفتتن قلوبھم بذلك الا قلیلا اما الدعاعون المضطرون ففتنتھم بذلك عظیمة جدا فاذا کانت المفسدة والفتنة التی لاجلھا نہی عن الصلوة مخففة فی ھؤلاء کان نھیھم عن ذلك او کد وھذا او اضح لمن فقه فی دین اللّٰہ وتبیین له ما جارت به الحنیفیة فی الدین الخالص للّہ وعلم السنة امام المتقین فی تجرید التوحید ونفی الشرك بکل طریق فلا یخلوا امان یکون الدعاء عند القبور افضل منه فی غیر ذلك البقعة اولا یکون۔ فان کان الافضل لم یجز ان یخفی علم ھذا عن الصحابۃ والتابعین وتابعیھم فتکون القرون الثلٰثۃ الفاضلۃ جاھلۃ بھذا الفضل العظیم ویعلمه من بعد ھم ولم یجزان یعلموا ما فیه من الفضل ویرید وافیه مع حرمحم علی کال خیر لا سماء الدعاء وھم یعلمون فضل الدعاء عندھا افضل کان قصد الدعاء عند ھا ضلالة ومعصیة کما لو تحری الدعاء وقصدھا عند سائر البقاع التی لا فضیلة الدعاء عندھا وھذا الدلیل قد دل علیه کتاب اللّٰہ فی غیر موضع مثل قوله تعالیٰ ﴿اَمْ لَھُمْ شُرَکَاءُ شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِه اللّٰہُ فَاِذَا لَمْ یَشْرِعِ اللّٰہُ﴾ استحباب الدعاء عند المقابر ولا وجوبه فمن شرعه فقد شرع من الدین ما لم بأذن اللّٰہ وقال اللّٰہ تعالیٰ ﴿اِنِّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَالاثم والبغی بغیر الحق وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلُ بِه سُلْطَانًا وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لا تَعْلَمُوْنَ﴾ وھذہ العبادة عند المقابر نوع مِنْ اَنْ یشرك باللّٰہ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِه عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا لان اللّٰہ لم ینزل حجة یتضمن استحباب قصد الدعاء عند القبور وفضله علی غیرہ ومن جعل ذلك دین اللّٰہ فقد قال علی اللّٰہ ما لم یعلم ثم اصحاب ابی حنیفه رحمة اللّٰہ علیه الذین ادرکوہ مثل ابی یوسف ومحمد عزفر والحسن بن زیادہ و طبقتھم لم یکونوا یتحرون الدعاء لا عند قبر ابی حنیفة رحمة اللّٰہ علیه ولا غیرہ انتہی ما فی الصراط المستقیم شیخ الاسلام احمد بن عبد الحلیم وھکذا فی صواعق الا لھیة لعلامة القنوجی محمد بشیر الدین رحمة اللّٰہ علیه۔))

’’آنحضرتﷺ نے قبر کے پاس نماز پڑھنے سے روکا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قبر پر بیٹھنے سے شکر کا ایک اور ذریعہ پیدا نہ ہو جائے، اور ان کے دلوں میں ڈر اور امید کا تعلق نہ پیدا ہو، اور یہ تو واضح بات ہے کہ مصیبت زدہ آدمی بہ نسبت عافیت والے کے جلدی فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور دعا کرنے والے عموماً بے قرار اور مصیبت زدہ ہی ہوتے ہیں تو اس خطرہ سے قبر کے پاس دعا و نماز سے روک دیا گیا، کہ مبادا قبروں سے لوگ مرادیں نہ مانگنے لگیں، اب قابل غور یہ امر ہے، کہ جب اس فتنہ سے بچانے کے لیے اس نماز اور دعا سے بھی روک دیا گیا، جو خدا کے سامنے ہو تو صاحب قبر سے دعا مانگنے کی نہی تو اس سے بھی زیادہ مؤکد ہو گی۔

پھر یہ بھی سوچیں، کہ دعا کے لیے سب سے بہتر جگہ قبر ہے یا کوئی اور، اگر قبر سب سے افضل ہے تو نبیﷺ اور تمام صحابہ اور تابعین اور دوسرے ائمہ ہدیٰ اس سے بے خبر تھے،کیونکہ کسی نے بھی قبر کے پاس جا کر کبھی دعا نہ کی، اور یہ ناممکن ہے کہ ایک چیز بہتر ہو، اور اس کا پتہ ان لوگوں کو نہ ہو، اور اگر کوئی اور جگہ بہتر ہے مثلاً مسجد وغیرہ تو پھر دعا اور ناز اس جگہ ہونی چاہیے، نہ کہ قبر کے پاس، یہ دین میں ایسی ایجاد ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں فرمائی، پھر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تمام شاگردوں میں سے کسی ایک نے بھی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کے پاس جا کر دعا نہ کی۔‘‘ ۱۲

(طالب الحسینین سید محمد نذیر حسین) (زشرف سید الکونین شد شریف حسین) (الجواب صحیح و خلافہ تبیع: محمد عبد الحلیم) (محمد حفیظ اللہ)

(محمد یوسف۔ جواب مجیب صحیح ہے، جو اس پر بھی نہ سمجھے، تو جہل ہے)

(محمد غلام اکبر خان سنی حنفی: خدا نے مہر ہے دل پر لگائی)

﴿بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْهِ مَنْ یَشاَءُ وَاللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾

(محمد حسین قادری وغفوری) (محمد صدیق) (ہست منصور علی از احمد)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 188-195

محدث فتویٰ

تبصرے